بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے کراچی میں مظاہرہ کیا گیا

کراچی میں‌بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا جس میں‌لاپتہ افراد کے لواحقین نے حکومت سے ان کے رشتہ داروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا.

کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل کے درمیان منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔

احتجاج میں شریک عبدالحمید زہری کی بیٹی سیدہ حمید بلوچ نےغیرملکی نشریاتی ادارے مشال ریڈیو کو بتایا کہ ان کے والد گزشتہ دو سال سے لاپتہ ہیں۔

انہوں نےکہا کہ اسلام آباد اور دیگر مقامات پر ان کی رہائی کے لیے احتجاج کیا اور عدالت بھی گئی لیکن ان کے والدہ کا کچھ پتہ نہیں چلا، اب احتجاج ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے، ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے رشتہ داروں کو رہا کیا جائے۔

پاکستان میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے 2011 میں ایک کمیشن بنایا گیا تھا۔ کمیشن نے دسمبر 2022 میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ لاپتہ افراد کے 9,133 کیسز رجسٹر کیے گئے ہیں جن میں سے 6000 کیسز حل کیے جا چکے ہیں۔

مظاہرے میں شریک اسلم بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے علاوہ پورے ملک میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچ عوام کو زبردستی لاپتہ اور اغوا ءکیا جارہا ہے۔ پہلے مرد غائب ہو جاتے تھے اب خواتین، بچے اور طالب علم بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بلوچ کہیں بھی محفوظ نہیں۔ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچوں کو رہا کیا جائے اور یہ غیر قانونی رویہ بند کیا جائے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ سال 9 ستمبر کو لاپتہ افراد کی رہائی اور ان کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ستمبر 2022 کے مہینے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلباء کی درخواست پر ایک کمیشن بھی قائم کیا ہے جس نے متعدد میٹنگز کی ہیں۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کرکے اپنی سفارشات اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادی ہیں۔

مظاہرے میں انسانی حقوق کے کارکن عمران خلیل نے کہا کہ برسوں سے لوگوں کو زبردستی روکا جا رہا ہے۔
اور جو سوال کرتا ہے وہ بھی لاپتہ ہو جاتا ہے۔ “پاکستان کے آئین کے مطابق کسی شخص کی جبری گمشدگی جرم ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بلوچوں اور پشتونوں کی گمشدگی کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔” بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لوگ آئے روز اغوا ءہوتے ہیں، کچھ لوگ برسوں سے حراستی مراکز میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر پاکستان کی عدالتیں آزاد ہیں تو ان لوگوں کو ان عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔