خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں حالیہ سیلابی ریلوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔
صوبائی حکومت کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق، سوات بائی پاس اور ملحقہ علاقوں میں پیش آنے والے مختلف واقعات میں اب تک آٹھ افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جب کہ 10 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے سوات بائی پاس پر جی قربان ہوٹل کے قریب اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں 18 افراد پھنس گئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیموں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین افراد کو بحفاظت نکال لیا، جب کہ چھ افراد کی لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔ لاپتہ نو افراد کی تلاش جاری ہے، جن کا تعلق ڈسکہ (پنجاب) اور مردان سے بتایا جا رہا ہے۔
اسی مقام پر واقع ریلیکس ہوٹل کے قریب مزید 10 سے زائد افراد کے ڈوبنے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ ریسکیو ٹیموں نے انگرو ڈھیری سے تین لاشیں نکالیں، جب کہ امام ڈھیری میں پھنسے 22 افراد کو کامیابی سے ریسکیو کیا گیا۔غالیگے، مانیار، پنجیگرام اور برہ باما خیل مٹہ سمیت سوات کے آٹھ مختلف مقامات پر ریسکیو آپریشنز جاری ہیں۔
اب تک کل 75 افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 58 کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
برہ باما خیل مٹہ میں 20 سے 30 افراد کو بروقت کارروائی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ریسکیو 1122 کے 105 اہلکار مختلف مقامات پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، تاہم سیلابی ریلوں کی شدت کے باعث ٹیموں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
دریائے سوات کے کنارے واقع تمام ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور تجارتی سرگرمیاں بند کر دی گئی ہیں۔ مون سون سیزن کے پیش نظر دریاؤں میں تفریحی سرگرمیوں پر پہلے سے دفعہ 144 نافذ ہے، اور عوام کو مسلسل آگاہی دی جا رہی ہے کہ وہ ریور بیڈز میں جانے سے گریز کریں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔
مزید برآں، واقعے کی مکمل انکوائری کے لیے چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوام سے ایک بار پھر اپیل کی گئی ہے کہ وہ دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب جانے سے اجتناب کریں اور ہنگامی حالات میں ریسکیو اداروں سے فوری رابطہ کریں۔