ریکارڈ بتاتا ہے کہ زلفی بخاری کے خاندان پر دولت کی کالی دیوی 80 کی دہائی میںاس وقت مہربان ہوئی جب اسکے والد واجد حسین بخاری اور چچا منظور حسین بخاری کی مشترکہ کمپنی “المرتضیٰ ایسوسی ایٹس” نے 2,300 پاکستانیوں کو لیبیا کی چند کمپنیوں میں بطور لیبر بھجوایا۔ یہ ترسیل 1981 سے شروع ہو کر 1982 کے اوائل تک مکمل ہوئی۔
مذکورہ افراد کے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد انکی فیملیوں نے شور مچایا کہ لیبیا جانیوالے افراد سے انکا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ انکا کہنا تھا کہاانہوں نے اس سلسلے میں المرتضیٰ ایسوسی ایٹس سے رابطہ کیا ہے لیکن وہ کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیتے، یہ 1982 کا واقعہ ہے- پاکستان کے کمزور قانونی نظام کے باعث اداروں نے انکی فریاد پر کان نہیں دھرے لیکن پھر لیبیا میں کچھ پاکستانیوں کی پراسرار اموات کی اطلاعات آناشروع ہو گئیں۔ متوفین کے جسد خاکی پاکستان نہیں آ سکے اور قانون کے مطابق انشورنس کلیم بھی نہیں ملے۔کچھ فریادی اپنی درخواستیں اسوقت کے صدر جنرل ضیاالحق تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔
صدرضیاءالحق نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے اپنی کابینہ کے ایک وزیر جناب غلام دستگیر خان صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔کمیٹی نے انتہائی جانفشانی کیساتھ معاملے کی تحقیقات کیں۔ پاکستان میں لیبیا کے سفارتخانے کو آگاہ کیا گیا اور کمیٹی ممبران کا ایک وفد لیبیا بھی گیا۔ دس ماہ کی تحقیقات میں حقائق سامنے آ گئے جنکے مطابق لیبیا کی جن کمپنیوں کی ملازمت پرلیبر کو بھیجا گیا تھا وہ جعلی تھیں اور حقیقتاً انکا کوئی وجود نہیں تھا۔لیبیا کے کچھ بدنام زمانہ جرائم پیشہ افراد نے پاکستان سے جن لوگوں کو المرتضیٰ ایسوسی ایٹس کے ذریعے لیبیا منگوایا وہ انسانی اسمگلنگ کے گروہوں سے منسلک تھے جو تیسری دنیا کے غریب ممالک سے بیگار لینے کیلئے لوگ/لیبر منگوا کر انہیں غلام بناتے اور شدید گرمی والے علاقوں میں جہاں عام طور پر درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم نہ ہوتا وہاں لیجا کر مفت کی مشقّت لیتے اور اس دوران بدترین تشدد بھی کرتے۔ انہیں لیبیا کے دارلحکومت ٹریپولی کے مضافات میں 45 کلومیٹر دور ایک علاقے “زاویہ” کے بیگار کیمپوں میں رکھا جاتا۔
تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں FIA پاسپورٹ سیل راولپنڈی نے انسانی اسمگلنگ کیس بنا کر ایف آئی آر نمبر 161/82 مورخہ 3 نومبر 1982 زیر دفعات 420, 468, 471, 277, درج کی۔ تقریباً 20 ماہ کے ٹرائل کے بعد راولپنڈی کی ملٹری کورٹ نمبر 32 نے مورخہ 8 اگست 1984 کو زلفی بخاری کے والد واجد حسین بخاری اور چچا منظور حسین بخاری کو 14/14سال قید بمعہ تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبطگی کی سزا سنائی۔
ریکارڈ بتاتا ہے کہ سال 1981 سے لیکر 1984 تک مذکورہ کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی بخاری فیملی نے اپنا سارا کالا دھن برطانیہ منتقل کر کے وہاں جائیدادیں خرید لی تھیں اور ممکنہ گرفتاری سے پہلے ہی برطانیہ بھاگ گئے۔یوکے لینڈ رجسٹری ریکارڈ بتاتا ہے کہ واجد بخاری نے اس پیسے سے برطانیہ میں دو کمپنیاں “معصومہ انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ” اور “سکینہ انویسٹمنٹ لمیٹڈ” بھی قائم کیں۔دونوں کمپنیوں کے نام واجد بخاری نے اپنی بیٹیوں معصومہ بخاری اور سکینہ بخاری کے ناموں پر رکھے۔
یہاں ذکر ضروری تو نہیں تھا لیکن ضمناً کرتا چلوں کہ اگست 2016 میں اسلام آباد کے مشہور زمانہ قتل کیس کے مقتول بیرسٹر فہد ملک جنہیں اسلام آباد سیکٹر F-10 کے پولیس سٹیشن کے سامنے راجہ ارشد اور نعمان کھوکھر نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا وہ سکینہ بخاری کے شوہر تھے، یعنی واجد بخاری کے داماد اور زلفی بخاری کے بہنوئی۔ زلفی بخاری اور اسکی دونوں بہنوں معصومہ بخاری اور سکینہ بخاری کے نام 2016 کے مشہور زمانہ پانامہ پپیرز لیکس میں موجود آفشور کمپنیوں جنکے نام “کے-فیکٹر لمیٹڈ” “, بریڈ بری ریسورسز لمیٹڈ” اور “بے-ٹیک لمیٹڈ” تھے میں سامنے آ ئے تھے-
زلفی بخاری کے نیب کیس اور واجد بخاری کے نئے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں تعمیری بےضابطگیوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بابت تفصیل پھر صحیح۔ شکریہ