ہم تم اک کمرے میں بند ہوں

وسعت اللہ خان

اس وقت پاکستان کی سماجی، انتظامی، سیاسی و اقتصادی تصویر کچھ یوں ہے ’ہم تم اک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے۔‘

حکمران پی ڈی ایم ہو کہ تحریکِ انصاف، دونوں ایک نکتے پر متفق ہیں ’اب یا کبھی نہیں، ایسے حکومت کرو جیسے یہ تمھاری آخری حکومت ہو، ایسے ٹانگیں کھینچو جیسے یہ تمھارا آخری دنگل ہو۔‘

دلدل سے نکلنا کیسے ہے یہ تو ہم میں سے کوئی نہیں جانتا مگر دلدل میں مسلسل دھنستی کرسی پر ہر حال میں چڑھے رہنے اور کرسی کو ہر حال میں خالی کرانے کے جنون نے ہمیں بہرحال برسوں کا سفر مہینوں میں ضرور طے کروا دیا ہے۔

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
(جون ایلیا)

یہ دھینگا مشتی، لپاڈکی، سر پھٹول کہیں سے بھی کوئی سیاسی لڑائی نہیں بلکہ ذاتی دشمنی کی نچلی ترین سطح جیسی کوئی شے ہے۔ جب دشمنی اندھی ہو جائے تو پھر کوئی قیمت مہنگی نہیں، کوئی بربادی آخری نہیں۔کوئی انتقام آخری نہیں۔

سنا ہے ہر دشمنی کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ ضرور ہوتے ہوں گے مگر یہ اعلیٰ ظرف دشمنوں کا مسئلہ ہے۔ میں اس وقت یہ آداب کیوں اور کسے یاد دلانا چاہ رہا ہوں؟

لڑائی جھگڑے کہاں نہیں ہوتے۔ مگر سب سے رزیل لڑائی وہ ہے جو مجمع بھرے چوک میں پڑے کیچڑ کے اندر ہو اور مجمع بھی بیچ بچاؤ سے زیادہ محظوظ ہونے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ اس مجمع کے پاس ویسے بھی خود پر یا گتھم گتھا سانڈوں پر ہنسنے کے سوا اور بچا بھی کیا ہے؟

اس ہنگامہِ ہاؤ ہو میں کس کس کو یاد ہے کہ رواں برس آئین کی گولڈن جوبلی کا سال ہے۔ اگر اس ملک میں فوج کے سوا کوئی شے تسلسل اور پائیداری کی علامت ہے تو یہی 1973 کا آئین ہے۔

اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آئین ہم سے بنا نہیں بلکہ سرزد ہو گیا۔ شاید اسی لیے یہ اپنی کیمیا میں ایسا سخت جان ثابت ہوا کہ اس نے بھی بلی کی طرح سات زندگیاں پائی ہیں۔ اسے بلندی سے گرایا گیا، اسے نہلا کے نچوڑ دیا گیا، اس پر کتے چھوڑ دیے گئے۔ اسے الٹا لٹکا دیا گیا۔

بیسیوں زخم کھانے اور بھانت بھانت کی ترمیمی ازیتیں سہنے کے باوجود یہ آئین عمر کے پچاسویں برس میں خود سے ہی گرتا پڑتا لڑکھڑاتا داخل ہو گیا۔

مگر دور دور تک اس کے لیے کوئی تالی بجانے والا کوئی گلے لگانے والا نہیں۔ کوئی پچاس موم بتیوں والے کیک کا آرڈر دینے کو تیار نہیں۔ جنھیں اہتمام کرنا ہے وہ تو خود ایک دوسرے کے گلے کے درپے اور کمر بند ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہیں۔

جو ادارے اس آئین نے جنم دیے وہ ناخلف تو خود ایک دوسرے کے سینے پر سوار ایک دوسرے کا چہرہ مسخ کرنے میں لگے پڑے ہیں۔

یہ آئین جنرل ضیا اور جنرل مشرف تک جھیل گیا۔ مگر آج اس پر جتنا کڑا وقت ہے پہلے کبھی نہیں آیا۔آج اس کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے اپنی ہر بے آئینیت اس کی شقوں سے کشید کر رہے ہیں۔ اس کا ورق ورق جہاز بنا بنا کے ہوا میں اڑا رہے ہیں۔ دیوقامتوں کے ہاتھ سے نکلا آئین بونوں کے ہاتھ لگ گیا۔

اک خواب مل گیا تھا مجھے رہگذار میں
وہ اس کو دے دیا ہے جسے کچھ خبر نہیں
( آفتاب ندیم )

یقین نہ آئے تو 1970 کی منتخب آئین ساز اسمبلی کے اراکین کے نام پڑھ لیجیے اور آج کی پارلیمانی فہرست بھی پڑھ لیجیے۔ ایک اسمبلی نے ہزار نظریاتی و سیاسی اختلاف کے باوجود یہ آئینی دستاویز تیار کر کے اس ریاست کے حوالے کی اور ایک اسمبلی یہ ہے جس نے شاید اسے پوری طرح پڑھنے کی زحمت تک نہیں کی۔ اس کی روح اور اس آئین کے اندر ہر ایک کے لیے طے شدہ دائرہ سمجھنا تو خیر بہت بڑی بات ہے۔

ایک اسمبلی وہ تھی جس میں قائدِ ایوان ذوالفقار علی بھٹو اور قائدِ حزبِ اختلاف ولی خان تھے اور ایک اسمبلی یہ ہے جس میں قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض ہیں۔

اور جب ہم اس کھلواڑی مسخرے پن کی کیفیت میں دھنسنے کے باوجود اچانک سے مظلوم صورت دھار کے ریاست کو ریڑھے پر بٹھا کے بین الاقوامی منڈی میں ہر آتے جاتے ملک کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اداکاری کرتے ہیں تو دیکھنے والے ترس اور رحم تو خیر کیا کھائیں ان کے پاس تو اس خراب اوور ایکٹنگ پر ہنسنے کا بھی سمے نہیں۔

اس فضا میں بھی جب قومی غیرت، خود مختاری، حقیقی آزادی، جمہوریت، انتخابات، سیسہ پلائی دیوار، بغاوت، غداری، عدل ، اسلامی تشخص، جان و مال کا تحفظ، اداروں کی بدنامی، نازک موڑ اور سب ٹھیک ہو جائے گا جیسے الفاظ سنائی پڑتے ہیں تو لگتا ہے گویا پگھلا سیسہ کانوں میں ڈالا جا رہا ہو۔

جب گریبان ہی سلامت نہیں تو اس میں جھانکنے کا مطالبہ بھی بے معنی ہے۔

پھر بھی کسی کو وہم ہے کہ ہم ڈوب رہے ہیں یا تباہ ہو رہے ہیں یا اغیار کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں یا کوئی ہمارے وجود کے درپے ہیں تو ان خوش فہمیوں کو جتنی جلد من سے نکال دیں اتنا ہی بہتر ہے ۔

کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل کر رہے ہیں ہمیں قتل ہو رہے ہیں
(عبیداللہ علیم)

یہ تحریر ہم سب کی ویب سائیٹ سے لی گئی ہے.لنک نیچے دیا گیا ہے.

ہم تم اک کمرے میں بند ہوں