سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاپتا افرادکیس کی سماعت کا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے کسی کو لاپتا نہ کرنے کی یقین دہانی مانگ لی۔
سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ کسی بھی شہری کو قانون سے ماورا نہیں اٹھایا جائے گا۔
حکمنامے میں اسلام آباد میں احتجاج کرنے والوں سے پولیس کے ناروا سلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہمارے علم یں لایا گیا کہ عدالتی چھٹیوں میں پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا، یہ عدالت اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیتی ہے کیونکہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے۔
واضح رہے کہ نئے سال کے پہلے دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاپتا افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے دو جنوری کو مقدمے کی سماعت کی تھی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ بہت ضروری اور اہم کیس ہے، یہ مسئلہ حل ہوگا جب ہم سب مل کر کریں گے، اس مقدمے کو سیاسی نہ بنائیں کیونکہ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ اعتزاز احسن کی درخواست میں سیاست جھلک رہی ہے، سب ذمہ داری قبول کریں، پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے، اب اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔
3 جنوری کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار آج والوں تو نہیں ٹھہرا سکتے، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت کو کمیشن کے پروڈکشن آرڈر پر جواب دینا چاہیے، کمیشن کی جانب سے جاری کردہ تمام پروڈکشن آرڈر بارے تفصیلی رپورٹ دیں، لاپتہ افراد کیس میں ذاتی مسئلے نہیں سنیں گے۔
حکم نامے میں سینیٹ سے لاپتہ افراد بل گم ہونے کا بھی ذکر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ الزام ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی کوششوں کو اسی پارٹی کے ووٹوں سے منتخب سینیٹ چیئرمین نے ناکام بنایا، یہ بہت سنگین الزام ہے جو صادق سنجرانی پر لگایا گیا ہے، صادق سنجرانی کو اس کیس میں درخواست گزار نے فریق نہیں بنایا، جب تک درخواست گزار انہیں فریق نہیں بناتے ان الزامات کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے وزیرستان میں 6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا قتل کرنے والے کو خدا کا خوف نہیں ہوتا؟ 6 نائی قتل کر دیے گئے لوگوں کو خوف ہی نہیں ہے، قتل کرنے والے یہاں سزا سے بچ سکتے آخرت میں تو جواب دینا ہوگا، بلوچستان میں 46 زائرین کو مار دیا جاتا ہے۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت 9جنوری تک ملتوی کردی تھی۔