نشستیں کم اور پولنگ اسٹیشن کافی دور قبائلی اضلاع کی خواتین و ضعیف العمر ووٹرزمشکلات کا شکار

(اسلام گل آفریدی )

سابقہ نیم قبائلی علاقے ایف آر پشاور کے حسن خیل سے تعلق رکھنے والی صائمہ نے 2018کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی محتص نشست کے لئے اپنے مرضی کے اُمیدوار کو گھرکے قریبی پولنگ سٹیشن میں ووٹ دیا تھا ۔ آنے والے انتخابات میں اُن کو معلوم نہیں کہ اُن کا پولنگ سٹیشن کونسی جگہ پر ہےجبکہ اُن کےحلقے کو مکمل طورپر ختم کرکے ضلع پشاور کے ساتھ شامل کردیا گیاہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پہلے سے ہی سابقہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو انتخابی عمل میں حصہ لینے میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے جبکہ نئی حلقہ بندیاں اور ووٹ کے ایک علاقے سے دوسرے علاقےکو منتقلی مزید مسائل کوجنم دیگی ۔

صائمہ کی طرح قبائلی اضلاع کی ہزاروں خواتین حلقے تبدیل ہونے کے بعد پریشانی کا شکار ہیں کیوں کہ اب انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے قدرے زیادہ دور جانا پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن کے زیادہ دور ہونے کی وجہ سے خواتین اور خصوصی طور ضعیف العمر افراد اپنا حق رائے دہی ہی استعمال نہ کریں۔

خیبر پختونخوا کےضلع اورکزئی کے قومی اسمبلی کے نشست کے دوبارہ حصول کے لئے کیس الیکشن ٹربیونل میں زیر سماعت ہے۔

غازی گلاب جمال اسی حلقے سے دو دفعہ یعنی 2003سے 2008 تک اور 2013سے 2018تک ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ جون 2019میں پہلی بارصوبائی انتخابات میں اُن کا بیٹا غزن جمال ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو گیا تھا۔

غازی گلاب جمال آنے والے انتخابات میں دو اضلاع کے نمائندگی کے لئے میدان میں اُترینگے۔ نئے حلقہ بندیوں کے تحت اُن کا علاقہ کم آبادی کے بنیاد پر قومی اسمبلی کے نسشت سے محروم ہوگیا اور ضلع ہنگو کے ساتھ ملاکر ایک قومی اسمبلی کا حلقہ بنایاگیا ہے۔

اُنہوں نے کہاکہ2017 کے چھٹی مردم کے اعداد وشمار کے مطابق اورکزئی کی کُل آبادی 2لاکھ 54ہزار تین سو بتائی گئی ہے جوکہ انتہائی کم ہےاور اس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں کیس داخل کیا گیا ہے جس میں موقف اپنایا گیا کہ مردم شماری ایسے وقت میں کی گئی کہ اپر اورکزئی کے دو بڑے قبیلے علی خیل اور ماموزئی علاقے میں جاری بدامنی کی وجہ سے اپنے علاقو ں سے باہر تھے لہذا ان لوگوں کی دوبارہ مردم شماری کی جائے۔

اُن کے بقول عدالت کے فیصلے کے مطابق ادارہ شماریات نے پانچ سال بعد 2022میں ساتویں مردم شماری میں اورکزئی کی آبادی 3لاکھ 87ہزار561ظاہرکی تھی لیکن اس وقت مذکورہ دونوں قبیلے کے لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں گئے تھے۔

الیکشن کمیشن نے رواں سال 27ستمبر کو پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کردیا جس کے تحت سابق قبائلی علاقوں کی بارہ قومی اسمبلی کے نشستیں کم کرکے 6 کردی گئی جبکہ سینیٹ کی آٹھ نشستیں مکمل طورپر ختم کردی گئی۔

یہی سات قبائلی اور چھ نیم قبائلی علاقے مئی 2018میں پچیسویں آئینی ترامیم کے بعد خیبر پختونخوا کاحصہ قرار دے دی گئی جبکہ ملک کے آئین میں ان کا خصوصی حیثیت ختم ہونے کے ساتھ مذکورہ علاقوں میں پہلی بار جولائی 2019میں صوبائی اسمبلی کی سولہ جنرل نشستوں پرجبکہ2021-22 میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاگیا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق نئے حلقہ بندیوں سے پہلے 2018کے انتخابات میں باجوڑ میں دو، مہمند ایک، خیبر میں دو، اورکزئی ایک، کرم دو، شمالی وزیر ستان ایک، جنوبی وزیر ستان دو جبکہ نیم قبائلی علاقوں سے قومی اسمبلی کی ایک نشست تھی تاہم آنے والے انتخابات میں باجوڑ ایک، مہمند ایک، خیبر ایک، کرم ، شمالی اور جنوبی وزیر ستان کے پاس قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست رہ گئی ہے جبکہ اورکزئی کو ضلع ہنگو اور چھ نیم قبائلی علاقوں کو قریب اضلاع کے ساتھ شامل کردیا گیا ہے۔

سابق قبائلی علاقے سات ایجسنیز اور چھ ایف آرز پر مشتمل تھے جن کے لئے بارہ قومی اسمبلی اورآٹھ سینٹ کے نشستیں مختص تھے ۔ انضمام کے بعد پہلی بار صوبائی اسمبلی کے سولہ جنرل ،تین خواتین اور ایک اقلیتی نشستیں دئیے گئے ۔

ناہید آفریدی نے پہلی بار صوبائی انتخابات میں سیاسی پارٹی کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن اُن کے بقول یہ آسان کام نہیں تھا کیونکہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی انتخابات میں شرکت اور قبولیت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بحثیت اُمیدوار سامنے آنا کسی کی سوچ میں بھی نہیں تھی ۔

اُنہوں نے کہاکہ پہلے تو سیاسی جماعتیں کسی بھی خاتون رکن کو ایسی جگہ پر ٹکٹ ہی نہیں دیتے جہاں پر جتینے کے مواقع کم ہو اور جب کسی جگہ پر ٹکٹ جاری کردیتے تو بعد میں مرد اُمیدوار کے نسبت خاتون کی اُسطرح مدد نہیں کی جاتی ہے۔

پاکستان عوامی انقلابی لیگ کے چیئرمین اور ضلع خیبر کی تحصیل باڑ ہ سے تعلق رکھنے والے ملک عطاء اللہ نے اپنے ضلع میں صوبائی حلقہ بندیوں کے تقسیم کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں کیس دائر کیاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ 2019کے صوبائی انتخابات کے لئے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ، جمرود اورلنڈی کوتل کو تین صوبائی حلقوں میں تقسیم کردیا گیا لیکن تحصیل باڑہ کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے باڑہ کے تحصیل ہیڈکواٹر، شلوبر قمبر خیل اور برقمبر خیل قبیلےکی آبادی کو بھی جمرود کے ساتھ جوڑاگیا جوکہ کسی طورپر اُن کے ساتھ ملانا مناسب نہیں تھا۔

اُنہوں کہاکہ اس فیصلے کے خلاف الیکشن ٹرببونل گئے لیکن وہاں سے بھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ اُن کاکہناہے کہ نئے حلقہ بندیوں میں اکاخیل قبیلے کے دوردراز علاقے جمرود کے صوبائی حلقے میں شامل کردیاہے جوکہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہےاور یکم نومبر کو الیکشن ٹربیونل میں اس حوالے سے پہلی پیشی ہوئی۔

15مارچ 2017کو ادارہ شماریات نے چھٹی مردم شماری کے مطابق سابق قبائلی علاقوں کی آبادی پچاس لاکھ بتائی گئی جبکہ 5اگست 2023کو ساتویں مردم شماری کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق قبائلی اضلاع کی آبادی بڑھ کر 69لاکھ ہوگئی تاہم ان میں چھ سابق نیم قبائلی علاقوں کی آبادی کو شامل نہیں کیا گیا۔

خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی ایک نشست 9نولاکھ سات ہزار 913 کی آبادی پر جبکہ صوبائی نشست 3لاکھ 55ہزار270آبادی پردیا جاتاہے جس کے مطابق ضم اضلاع کے حصے میں چھ قومی اور سولہ صوبائی نشستیں آئی ہیں ۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ لوگوں کی آباد ی کے جو اعداد شمار ادارہ شماریات کے جانب سے فراہم کئے گئے ہیں اُس کے مطابق ہی حلقہ بندیوں کی تقسیم کےعمل کو مکمل کرلیا گیا ہے۔

قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف ایک تحریک فاٹاقومی جرگے کے نام سے سرگرم ہے ۔ مذکورہ جرگے میں وہ سیاسی جماعتیں اور مقامی عمائدین شامل ہیں جوانضما م کی مخالف ہیں ۔ جرگے کے سربراہ حاجی بسم اللہ خان آفریدی نے کہاکہ مئی دو ہزار آٹھارہ ہی سےجرگہ انضمام کے خلاف تحریک چلارہاہے کیونکہ اس اہم فیصلے میں مقامی لوگوں کے رائےکو نظر انداز کرکے مقتدرہ قوتوں نے یک طرفہ فیصلہ کرکے بڑی زیادتی کی۔

اُنہوں نے کہاکہ انضمام کے وقت کئے گئے وعدے جن میں دہشت گردی سے متاثرہ بنیادی سہولیات کی بحالی، نیشنل فنانس کمیشن میں دس سال تک تین فیصد حصے سمیت سالانہ ترقیاتی فنڈ ز کی عدم فراہمی،قومی اسمبلی کی سیٹیں 12 سے 6جبکہ سینیٹ کی آٹھ نشستوں کا خاتمہ بنیادی مسائل ہیں جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو ترقی سے مذید کئی دہائیاں دور کردی گئی ہے۔

اُنہوں نے کہاکہ ضلع اورکزئی اور چھ ایف آر کی قومی اسمبلی میں بالکل نمائندگی ختم ہوگئی۔اُن کے بقول انضما م کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

دوہزار اکیس کے اوائل میں فاٹا انضمام کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کردیا گیا جبکہ اب تک اس کیس میں قبائلی عمائدین اور حکومتی عہدیدار حاضر ہوچکے ہیں تاہم آخری سماعت رواں سال کے ابتداء میں ہوئی تھی۔ عدالت نے حکومت سے اس حوالے جواب داخل کرنے کے لئے کہاکہ کیسے پارلیمان آئین میں ترامیم کرکے ملک کے ایک اکائی کو کم کرسکتاہے ۔

ناہید آفریدی نے کہاکہ دو سال پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں خواتین کے بحثیت ووٹر زیادہ تعداد میں شامل ہونے کےلئے ضلع خیبر میں آگاہی مہم چلا گیا اور بڑی تعداد میں ایسے خواتین کے ساتھ ملاقات ہوئی جنہوں نے زندگی میں کبھی بھی ووٹ کا استعمال نہیں کیا تھا ۔

اُنہوں نے کہاکہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ خاتون کو ووٹ کے استعمال کے حوالے اُن کو طریقہ کار سمجھاتے ہیں ۔اُنہوں نے کہاکہ خواتین کے انتخابی عمل میں شمولیت کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور اس حوالے سے بہت بڑے پیمانے پر الیکشن کمیشن اور سماجی کارکنوں کے لئے کام کی ضرورت ہے تاکہ گھر کے مردوں کی سوچ میں تبدیلی آسکے ۔

حال ہی میں جنوبی وزیر ستان کو انتظامی طور پر دونوں حصوں یعنی لوئر اور اپر وزیرستان میں تقسیم کردیاگیا ہے جبکہ ساتویں مردم شماری میں دونوں حصوں کی آبادی 8لاکھ 88ہزار 675ہے۔ آنے والے انتخابات میں جنوبی وزیر ستان ایک قومی نشست سے محروم ہوگیاجبکہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں دی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق لوئر جنوبی وزیر ستان سے 1لاکھ 72ہزار اور اپر جنوبی وزیر ستان کے 2لاکھ 91ہزار488ووٹر ز رجسٹرڈ ہیں۔ ایک قومی اور ایک صوبائی نشست کے حصول کے لئے جمعیت علماء اسلام(جےیو آئی) کی طرف سے الیکشن ٹربیونل اور سپریم کورٹ میں کیس دائر کردیا گیا ہے۔

جےیو آئی کے مقامی رہنماء سید انور محسود نے کہاکہ محسود علاقہ دہشت گردی کے خلاف جون 2009میں فوجی آپریشن راہ نجات کی وجہ سے پوراخالی ہوا جبکہ 2017میں چھٹی مردم شماری میں پوری ضلع کی آبادی 6لاکھ 75ہزار 215بتا ئی گئی.الیکشن کمیشن کا کہناہے کہ آبادی کے بنیادپر جنوبی وزیرستان اپر اورلوئر کے حصے میں ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کے نشستیں آتے ہیں تاہم ایک صوبائی نشست کےحصول کے لئےکیس الیکشن ٹربیونل میں زیرسماعت ہے جس کا جلد فیصلہ ہوجائیگا۔

اُنہوں نے کہاکہ مذکورہ اعداد شمار جاری ہونے پر علاقے کے سیاسی قیادت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور موقف اپنایا کہ آئندہ مردم شماری میں ملک کے دیگر علاقو ں میں رہائش پذیرمحسود قبائل کو شناختی کارڈ میں مستقل پتہ پر اپنے علاقے میں شمار کیاجائے تاہم 2022 میں آخری مردم شمار ی بھی ایسے وقت میں کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن سے اب بھی بڑ ی تعداد میں لوگ اپنے علاقوں سے باہر رہائش پذیر ہے۔

اُن کے بقول پرویشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور نادرا کے پاس محسود آبادی کے جو اعداد وشمار موجود ہیں اُس کے مطابق جنوبی وزیرستان کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے جن کی بنیادپر مذید ایک صوبائی اور ایک قومی نشست دی جائے۔

ادرہ شماریات کے مطابق مردم شماری سے پہلے قبائلی اضلاع میں ضلعی اور سیکیورٹی حکام کی ہدایت کے مطابق کیاگیا اور کہیں پر یہ نہیں بتایاگیا کہ کوئی علاقہ ایسابھی ہےجہاں پر لوگ بے گھر ہوکر واپس اپنے علاقوں میں نہیں گئے ہیں جس کے وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قبائلی اضلاع کے تمام افراد کو صحیح طریقے سے شمار کیاگیا ہے ۔

غازی گلاب جمال کاکہنا ہے کہ اورکزئی پہلے سے انتہائی پسماندہ ہے اور بدامنی کی لہر نے علاقے میں زندگی کے بنیادی سہولیات اور مکانات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جبکہ کئی سال گزرجانے کے باوجود بھی اپراورکرزئی کی بڑی تعداد میں مقامی لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں گئے ہیں اورچھٹی اور ساتویں مردم شماری بھی ان حالات میں کی گئی۔

اُنہوں نے کہاکہ الیکشن ٹربیونل میں صوبائی نشست پرکوئی اعترض نہیں تاہم قومی اسمبلی کی نشست کے حصول کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کی قومی اسمبلی کے بارہ نشستیں برقرار رکھنے اور صوبائی اسمبلی کے جنرل سولہ نشستیں بیس تک کرنے کی قرارد ادمنظوکرلی گئی تاہم سینیٹ میں چار سال گزرجانے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی جوکہ انتہائی افسوسناک ہے۔

ملک عطاء اللہ آفریدی نے کہاکہ انضمام کے فیصلے سے قبائلی عوام کی قومی، صوبائی اور سینیٹ میں نمائندگی ختم ہونے سے بہت بڑا نقصان مستقبل میں یہاں کے عوام کو اُٹھاناپڑیگا کیونکہ سالانہ ترقیاتی منصوبوں اور علاقے کے بہتری کے لئے ہونے والے قانون سازی پر برا اثر ہوگا۔ اُنہوں نے کہاکہ اس پوری صورتحال کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے عوام کی امنگوں کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ماضی کی طرح نمائندگی کا حصول کئی دہائیوں میں بھی ممکن نہیں ہے۔

انضمام کے عمل میں سے سب زیادہ سرگرم اور ضلع خیبر سے سابق ممبر قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل آفریدی کا موقف جانے کے لئے اُن ساتھ کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم اُن کے طر ف سے کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔

حاجی بسم اللہ نے کہاکہ پہلے کی نسبت انضمام مخالفین کے تعداد میں اضافہ ہوا جن کی ایک بنیادی وجہ بعض علاقوں کا صوبائی، قومی اسمبلی کے نشستوں کے کم یامکمل خاتمہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ فاٹاقومی جرگہ آنے والے ہفتے میں تمام قبائلی اضلاع کا نمائندہ جرگہ منعقد کررہاہے جن میں آنے والے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیاجائیگا تاہم اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق نیم قبائلی علاقے اور اورکزئی کے لوگ پہلے سے اس فیصلے پر سوچ بچارکررہے ہیں۔

صائمہ کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ایک حد تک خواتین اُمید وار کامیاب ہوگئے تاہم اب بھی وہ اپنے اختیارات سے ناواقف ہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ ہر سطح پر انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے اُن کے مسائل کم ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہورہاہے ۔

الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق قبائل اضلاع میں کل تین کروڑ74 لاکھ سے زائدد ووٹر رجسٹرڈ ہے جن میں ایک کروڑ چالیس لاکھ خواتین ہیں ۔

قبائلی علاقوں کی نمائندگی بڑھانے کے لئےمئی 2019کوشمالی وزیر ستان سے سابق ممبر قومی اسمبلی اور ڈیموکریٹک موومنٹ(این ڈی ایم) کےسربراہ محسن داوڑ نے چھبیسواں آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کیاتھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں ضم اضلاع کی بارہ نشستوں کو برقرار کھنا اور پہلےسے صوبائی اسمبلی کی مختص سولہ جنرل نشستیں بڑھاکر بیس کرنے کا تجویز پیش کیاگیا تھا۔ آئینی ترمیمی بل 2019 کے حق میں 288 اراکین نے ووٹ دیا۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار تھی کسی آزاد رکن کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل کو حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے قبائلی علاقوں کو زیادہ نمائندگی دینے سے متعلق آئینی ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے کو خوش آئند قرار دیاتھا اور کہاتھا کہ قبائلی علاقوں کے عوام بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔

چھبیسویں آئینی ترمیمی بل کے حوالے سے محسن داوڑنے کہاکہ قبائلی عوام کے مسائل ملک کے باقی حصوں کے نسبت زیادہ ہیں اور 2018میں پچیسویں آئینی ترامیم کے ساتھ قبا ئلی علاقوں کے انضمام کے ساتھ ایف سی آر کا خاتمہ کردیا گیا اور ملکی آئین اور تمام قوانین کا نفاذ ان علاقوں میں پہلی بار ہوا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق آبادی کے بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں سے نہ صرف قومی اسمبلی کے نشستیں کم ہوئے جبکہ بعض علاقوں کی نمائندگی ختم ہوئی جبکہ سینیٹ کی آٹھ نشستیں مکمل طورختم کردئیے گئے۔

اُنہوں نے کہاکہ قبائلی اضلاع کے صوبائی اسمبلی کے سولہ جنرل اور پانچ خصوصی نشستیں بھی کم ہیں اس وجہ سے آئینی ترمیم میں کہاگیا کہ جنرل نشستوں کی تعداد مذکورہ علاقو ں کے لئے بیس کردیئے جائیں۔

اُنہوں نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیی بل قومی اسمبلی سے بھاری اکثریت سےپاس ہونے کے باوجود بھی سینیٹ نے چار سال میں اس پر کو ئی بحث نہیں کی جوکہ ایک کروڑ قبائل کے ساتھ ناانصافی ہے۔