خواجہ سرا انتخابی عمل سے دور کیوں؟

(اسلام گل آفریدی)

خوشبو خواجہ سرا ہے اور2018کے عام انتخابات میں اُنہوں نے پشاور سے صوبائی اسمبلی حلقے کے لئے اُمیدوار کے حیثیت سے کاعذت نامزدگی داخل کردی تھی۔ یہ اقدام اُن کے لئے بڑی پریشانی کا سبب بنی کیونکہ دیگر اُمیدواروں نے اُن کو ڈریا دھمکایا کہ وہ اپنے کاغذات واپس لے کیونکہ یہ اُن کے لئے شرم کی باعث ہے کہ کوئی خواجہ سرا اُن کے ساتھ مقابلے میں الیکشن لڑرہاہے۔

خوشبوکا کہنا ہے کے دوستوں کے کہنے کے باوجود بھی میں نے اپنے کاعذات واپس نہیں لئے لیکن پریزانڈنگ آفسر نے کوئی وجہ بتائے بغیر میرے نامزدگی مسترد کردی اور اسطرح میں انتخابی عمل سے الگ ہوگئی۔

خوف کی وجہ سے خوشبو پشاور شہر کو چھوڑ کر دوسرے جگہ منتقل ہوچکی ہے۔

زندگی کے باقی شعبوں کی طرح خواجہ سراؤں کو ا نتخابی عمل جیسے اہم سرگرمی سے دور ر ہنے کی وجہ سے اس حصے میں اُن کوکافی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

خیبر پختونخوا میں کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم “د حوالور “(حوا کی بیٹی) پچھلے بارہ سالوں سے خواجہ سراؤں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کررہاہے۔ تنظیم کے سربراہ خورشید بانوکاکہناہے کہ خواجہ سراؤں کو انتخابی عمل میں حصہ دار بنانے کے لئے جب تک خواجہ سراؤں میں گرو سے لیکر قومی اسمبلی کے نشست تک انتخاب میں ووٹنگ کی روایات سامنے نہیں آتا اُس وقت تک ان کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔

اُنہوں نے کہاکہ انتخابی عمل میں خواجہ سراؤں کو حصہ دار بنانے کے لئے نادراکے ساتھ ایکس جنس پر شناختی کارڈ بنانے لئے محکمہ سماجی بہود اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں ۔اُن کے بقول محکمہ سماجی بہود کے جانب سے پوری صوبے سے دو ہی گرروں نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور ان ہی کی تصدیق کے بعد خواجہ سراء کو شناختی کارڈ جاری کردیا جاتاہے ۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں عام انتخابات آٹھ فروری کوکرانے کا اعلان کردیا ہے۔معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق ملک بھر میں 12کروڑ 68لاکھ 90ہزار 227ووٹرز رجسٹرڈ ہے جن میں 5کروڑ 84لاکھ 7ہزار201خواتین ہے۔

دستاویزات کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں ملک بھر سے 3029 خواجہ سرا ووٹرز اپنا حق رائے دہی کا استعمال کر ینگے۔ 2018 کے انتخابات کی نسبت رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد میں 11سو 16 کا اضافہ ہوا،اس وقت سب سے زیادہ رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز صوبہ پنجاب میں ہیں جن کی تعداد 2200 ہے جبکہ 2018 کے انتخابات میں پنجاب میں رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد 1356تھی۔ 133 خواجہ سراء ووٹرز خیبر پختونخوا سے رجسٹرڈ ہیں۔

کمیشن کے مطابق ووٹر رجسٹریشن کے لئے فام اکیس میں خواجہ سرا کے لئے الگ خانہ موجود ہے۔ یہ فارم کیا ہے اور خواجہ سرائوں کا الگ خانہ کیوں ہے؟ کیا مرد اور خواتین کا خانہ بھی الگ الگ ہوتا ہے؟ اُوپر بتایا گیا کہ یہ فام ووٹر رجسٹریشن کے لے ہے کہ ایک بندہ مرو، عورت یا خواجہ سراء اپنا جنس لکھ سکتاہے۔

پشاور کے خواجہ سرا اور سماجی کارکن ہیر اپنے لوگوں دیگر مسائل پر اپنے لوگوں کے آگاہی کے ساتھ شناختی کارڈ کے حصول اور الیکشن کمیشن کے ساتھ اپنے ووٹر رجسٹریشن کے لئے آگاہی مہم پر رضاکارنہ طورپر کام کررہی ہے لیکن اُن کے بقول یہ آسان کام نہیں کیونکہ خواجہ سراء کے لئے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے کئی مسائل کاسامنا کرنا پڑرہاہے۔

اُنہوں نے کہاکہ بڑا مسئلہ خواجہ سرا کے پاس ایکس کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اکثریت نے مرد یا عورت کے شناخت پر کا رڈ حاصل کرچکاہے اور الیکشن کمیشن کے ساتھ اس بنیاد پر اُن کے ووٹ بھی رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ انتخابات کے دن جب ووٹ ڈالنے کے لئے خواجہ سراء پولنگ سٹیشن جاتے ہیں تو وہاں پر اُن کے لئے کوئی خاص انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں پر موجود لوگ اُن کے مذااق اُڑنا شروع کردیتاہے۔ اُن کے بقول اکثریت خواجہ سراء ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے ڈیروں سے نہیں نکلتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں پر جاکر مردوں اورنہ خواتین کے پولنگ بوتھ پر اُن کو ووٹ ڈالنے کی سہولت میسر ہوگی۔

خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد کی کرن علی کا ووٹ مرد کے حیثیت سے الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ اُن کے بقول 2018کے عام انتخابات میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ چہرے ڈھانپ کر ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشن گئی تو وہاں پر مردوں کے قطار میں اپنے باری کے انتظار کے لئے کھڑے ہوئے۔ اُنہوں نے کہاکہ تھوڑی دیر بعد وہاں پر سارے لوگ جمع ہوکر ایک عجیب قسم کا ماحول بن گیا اور لوگ طرح طرح باتیں کرتے تھے۔ اُن کے بقول وہاں پر سیکورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا کہ وہ ان لوگوں کو روک سکے جو ہمیں حراساں کرنے کی کوشش کررہے تھے تو اس وجہ سے تھوڑی انتظار کے بعد بغیر ووٹ ڈالنے کے اپنے ڈیر ے پر واپس آگئے۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شنیواری نے کہاکہ کمیشن تمام رجسٹرڈ ووٹرز کو اپنے رائے دہی کے استعمال کا حق دیتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ خواجہ سراء، خواتین اور اقلیتی برادری کسی بھی انتخابی عمل میں پھرپور طریقے سے حصہ لینے کے لئے موثراقدامات کررہے ہیں تاکہ بغیر کسی روکاٹ کے وہ اپنے رائے کا استعمال کرسکے۔اُنہوں نے کہاکہ خواجہ سراء اور اقلیتی برادری کے آگاہی کے لییضلعی ووٹر ایجوکیشن کمیٹیوں کے پلیٹ فارم میں شامل کیاگیا ہے اور اس حوالے سے مستقبل سرگرمیاں جاری رہتے ہیں۔ اُن کے بقول قانون کے مطابق ووٹرز رجسٹریشن کے لیے پہلے شناختی کارڈ کا حصول لازمی ہے جس کے الیکشن کمیشن نادرا کے تعاون سے عوام اور بالخصوص، خواتین، اقلیتوں اور خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ کے حصول کے لئے مہم چلا رہاہے تاکہ ووٹ کے اندراج کو بڑ ھایا جائے۔

خواجہ سراء ماہی گل سیاسی علوم میں ماسٹر کی ڈگری کرچکی ہے اور اپنے لوگوں کے حقوق کے لئے کام کررہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ پچھلے سات سالوں سے پشاور میں رہائش پذیر ہے تاہم اس دوران کبھی بھی کوئی انتخابی اُمیدوار ووٹ مانگے کے لئے خواجہ سراؤں کے ڈیر ے پر نہیں آئے کیونکہ اُن کو معلوم ہے کہ ان لوگوں کے ووٹ نہیں یا یہ لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں نکلتے۔ اُنہوں نے کہاکہ پوری صوبے میں جہاں پر خواجہ سراء رہائش پذیر ہے تو وہاں پر یہ لوگ زندگی کے بنیادی سہولت سے محروم ہے اور کوئی عوامی نمائندہ اُن کے حل کے لئے کام بھی نہیں کرتے کیونکہ اُن کو ئی سیاسی فائدہ نہیں۔

خورشید بانو کاکہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کو کئی بڑے مسائل درپیش ہے جن میں نادراسے مخصوص جنس ایکس پرکارڈ کے حصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے پالیسی کی عدم موجوگی، وراثت سے محروم، رہائشی علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان،جنسی وجسمانی تشدد کی عدم روک تھام اور حکومتی سطح پر فلاح وبہبود کے لئے فنڈ کی عدم دستیابی جیسے بنیادی مسائل کا سامنا کررہے ہیں جن کے حل کے لئے سیاسی طور پر خواجہ سراؤں کا اپنے آپ کو مستحکم کرنا ہوگا۔

سوات کے پچیس سالہ خواجہ سرا نمکین نے کہاکہ اب تک اُن کاشناختی کارڈ نہیں بنا ہے تو ووٹ کہاسے رجسٹرڈ ہو جائیگا۔ اُن کے بقول چند مہینے پہلے شناختی کارڈ بنانے کے لئے نادرا دفتر چلی گئی لیکن اُن کو بتایا گیا کہ خواجہ سراء کے مخصوص کارڈ جاری کرنے پر پابندی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اُ ن کوسفر، رہائش، تعلیم، علاج، نوکری اور ووٹ رجسٹریشن میں مسائل درپیش ہیں۔

نادرا نے وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی دفعات کے خلاف فیصلے کے بعد نادرا نے خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) رجسٹریشن کو روک دیا گیا تھا۔تین ماہ بعد25ستمبر کو خواجہ سراؤں کی شناختی کارڈ کے لئے رجسٹریشن کا عمل نادرا نے دوبارہ شروع کردیا۔نادرا کا موقف تھاکہ وفاقی شرعی عدالت کا خواجہ سراؤں کے حقوق کے مجوزہ قانون کے فیصلے کے بعد یہ عمل روک دیا گیا تھا لیکن اب دوبارہ شروع ہو گیا ہے جبکہ معاملہ تاحال سپریم کورٹ میں ہے۔ نادرا آئینی طور پر اپنے بیرونی قانونی مشاورتی ونگ کی سفارش کے بعد خواجہ سراؤں کے لیے مخصوص شناختی کارڈ پرنٹ کرنے کا پابند ہے۔

ہیر نے کہاکہ آنے والے انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن کے طرف سے اب کوئی آگاہی مہم خواجہ سراؤں کے لئے نہیں چلا یا گیا۔ اُنہوں نے کہاکہ کچھ غیر سرکاری نتظمیں آگاہی نشستیں کراتے ہیں لیکن اُن میں بہت کم تعدا د میں خواجہ سراؤں کو موقعہ ملتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن 2018کے انتخابات میں پشاور میں مقیم خواجہ سراؤں کو پولنگ سٹیشنز میں ڈیوٹیاں دینے کے لئے مدعو کرایا گیا اور جیسے ہی وہاں پر خواجہ سراؤں نے اپنا کا م شروع کیا تو ووٹ کے لئے آئے ہوئے مرد اور عورتوں کے لئے ایک تماشہ بن گئی جس کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ہی مجبور کام چھوڑنا پڑا۔

خورشید بانو کاکہنا ہے کہ نادرا اور الیکشن کمیشن خواجہ سراؤں کو درپیش مسائل میں ہر ممکن تعاون کررہاہے جبکہ دیگر متعلقہ حکومتی اداروں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ حقوق سے محروم ان لوگوں کے فلاح بہبود کے لئے تمام وسائل برائے کار لائے تاکہ ان کے مسائل کم ہوسکے۔ اُنہوں نے کہاکہ غیر سرکاری امدادی ادارے اپنے محدود وسائل کے اندار خواجہ سراؤں کے لئے کا م کررہاہے لیکن حکومتی سطح پر بھی اقدمات کی ضرورت ہے۔

خواجہ سراؤں کو درپیش مسائل کی بڑی وجہ صحیح اعداد شمار کی عدم موجودگی ہے۔ملک کے کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے کے پاس خواجہ سراؤں کے باقاعدہ کوئی رجسٹریشن موجود نہیں جس کے وجہ سے مذکورہ افراد کے مسائل کے حل کے لئے موثر حکمت عملی سامنے نہیں آتا۔

2017میں چھٹی مردم شماری کی جاری کرد ہ اعدد شمار کے مطابق ملک کی کل آبادی 21کروڑ 22لاکھ 22ہزار 917 تھی جن میں دس ہزار 418خواجہ سراء تھے۔ مذکورہ اعداد شمار میں 913خیبر پختونخوا جبکہ 27سابق قبائلی علاقوں سے رجسٹرڈ ہوگئے تھے۔رواں سال مئی میں ادرہ شماریات نے ساتویں مردم شماری کے ابتدائی رپوٹ میں جاری کردیا جس میں کہاگیا کہ ملک کی آبادی 24کروڑ، 18لاکھ31ہزار 19تھی تاہم ان میں اقلیتی اور خواجہ سراؤں کے تعداد ابھی تک جاری نہیں کیاگیا۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ سماجی بہود کے ساتھ 527خواجہ سراء رجسٹرڈ ہے جبکہ خواجہ سراؤں کے نمائندوں کا موقف ہے کہ صوبے میں پچاس ہزار سے زائد خواجہ سراء موجود ہے۔

نادرا کے ترجمان فائق علی چاچڑ نے اس بات کی تصدیق کی کہ نومبر2021میں سینیٹ میں جو اعداد شمار پیش کیے گئے وہ درست ہیں۔ان کے بقول جولائی سنہ 2018 سے جون 2021 تک نادرا کو جنس تبدیلی کے سرٹیفیکیٹ کے اجرا کے لیے 28 ہزار 7 سو 23درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جن میں 16ہزار 530 درخواستیں مرد سے عورت اور15ہزار154 درخواستیں خاتون سے مرد جنس میں تبدیلی کی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پورے ملک میں 5626 خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔ادارے کے مطابق خیبرپختونخوا میں پچاس تک خواجہ سراؤں کو ایکس جنسی شناخت پر کارڈ جاری کیا گیا ہے۔

ماہی گل کاکہنا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ سراؤں کے باقاعدہ اور تصدیق شدہ اعداد شمار کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس موجود نہیں جس کے وجہ سے حکومتی سطح پرکوئی توجہ نہیں دیاجاتا۔

اُنہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں خواجہ سراؤں کے پاس شناختی کارڈ جیسے بنیادی چیز بھی موجود نہیں اور اس کوبنانے میں اُن کو کئی مسائل کاسامنا کرنا پڑتاہے کیونکہ وہ والدین سے دور زندگی گزرتے ہیں جبکہ نادراکے عملے کے عدم تعاون اور وہاں کے طریقہ سے یہ لوگ تنگ ہوکر بغیرکا رڈ بنائے واپس ڈیر ے پر چلا جاتاہے۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء شگفتہ ملک نے اس حوالے کہاکہ اس میں خواجہ سراؤں کی تعداد کی کمی اور سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ سیاست میں سامنے نہیں آتے ہیں ۔اُن کے بقول اسمبلی کے فلو ر پر ان لوگوں کے حقوق
کے لے ہمیشہ موثر آواز اُٹھائی ہے ۔

الیکشن کمیشن کا کہناہے کہ صرف مرد اور عورت کے جنس کے بنیاد پر ووٹ رجسٹرڈ کردیا ہے جبکہ خواجہ سرا کی کم تعداد کی بناء پر الگ پولنگ سٹیشن کا قیام ممکن نہیں۔