احسان داوڑ
پیر روشان جسے بایزید انصاری کے نام سے جانا جاتاہے کا اصل نام شیخ سراج الدین تھا جو 1525 ء کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے ۔ اس کی والدہ بیوہ خاتون تھی جس کاخاندان جنوبی وزیرستان کے علاقے کانیگرم میں رہائش پذیر تھا اور پیر روشان کے دادا شیخ ابوبکر نے اس کے قاضی عبداللہ کے سامنے اس کی دوسری نکاح کے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ اس کی بیٹی جالندھر میں ہی رہے گی تاہم بعد میں وہ کانیگرم اپنی والدہ بی بی امنہ کے ساتھ شفٹ ہوئے جہاں اس کے سوتیلے والد قاضہ عبداللہ کا رویہ اس کی والدہ کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا جس پر علاقے کے مشران نے ایک جرگے میں انہیں طلاق دلوادی جس کے بعد وہ واپس جالندھر چلے گئے۔ اس وقت پیر روشان کی عمر سات سال کے قریب بتائی جاتی ہے۔
پیر روشان کی تحریک اور اس کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ اسی زمانے میں پشتون قوم میں علم کی روشنی اور بیداری پھیلانے کیلئے جو تحریک چلائی گئی تھی اس کو ہم سے خفیہ رکھی گئی اور اسی تحریک کےمقابلے میں مغلوں نے جو سوکالڈ ولی اور قطب لانچ کئے تھے اس کے بارے میں ہمیں نہ صرف نصابی کتب بلکہ دیگر ذرائع ابلاغ سے بھی بہت کچھ کہا گیا ہے اس کیلئے آیاز اسپزئے صاحب کی کتاب ” خپل اتلان و پیژنئی ” بہت بہترین اور مفید کتاب ہے جو لوگ پشتونوں کے عظیم رہنماؤں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں وہ یہ کتاب ضرور پڑھ لیں ۔
ہمارا آج کا موضوع پیر روشان کے مقبرے ( وہ کہاں دفن ہیں ) کے بارے میں ہے ۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ پیر روشان کے مدفن کے بارے میں بہت سی روایات ہیں تاہم اب تک کسی بھی روای نے مسلمہ طور پر پیر روشان کے مقبرے کے بارے میں مصدقہ اطلا ع نہیں دی ہے البتہ ایک انتہائی مضبوط روایت یہ ہے کہ وہ شمالی وزیرستان کے علاقہ عیدک میں دریائے ٹوچی کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی چوٹی پر دفن ہیں ۔
آیئے اس رویات کا ذرا جائزہ لیں کہ اس میں کتنی صداقت ہے ۔ پیر روشان کے آخری ایام کے بارے میں آیاز اسپزے لکھتے ہیں کہ پیر روشان کی سرکردگی میں روشنی تحریک نے جتنے بھی جنگیں لڑی ہیں اس کی تفصیل ہمیں حالنامہ میں ملتی ہیں تاہم اس کی آخری جنگ جس میں وہ شہید ہوئے کے بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ۔ البتہ اخون درویزہ ( پیر روشان کے سخت ترین مخالف) نے لکھا ہے کہ محسن خان غازی کی سرکردگی میں جب مغلوں نے پیر روشان کی لشکر کو تور راغہ نامی جگہ میں شکست دیدی تو وہ سخت ترین حالات میں کلپانی پہنچے اور وہاں ہشتنغر میں وفات پا گئے تاہم یہ تاریخی طور پر درست نہیں ۔ اس حوالے سے استاد قیام الدین خادم انگریز مصنف جارج مورگن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پیر روشان ہشتنغر کے علاقے بھتک پور میں دفن ہیں ، سر اولف کیرو، میجر روارٹی ، مخزن الاسلام اور دیگر تاریخی حوالوں سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ سال 1581 میں وفات پا گئے ہیں تاہم بعض ذرائع کہتے ہیں کہ پیر روشان کی مغلوں کے ساتھ آخری جنگ ننگرہار میں ہوئی جس میں ان کو شکست ہوئی اور وہ صوابی کے علاقے دلہ زاک پہنچ گئے جہاں اس کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور اس کا سر مغلوں کے سامنے پیش کیا گیا ۔ یہ روایت اس لئے بھی قرین قیاس اور مضبوط ہے کہ اس کے بعد تمام روایات زبانی چلے آرہے ہیں جس کے مطابق پیر روشان کی جسد خاکی کو اس کے مرید شمالی وزیرستان لے گئے تھے اور عیدک کے جنوب میں ایک پہاڑی ( غونڈی ) کے مقام پر دفن کیا گیا تھا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس زمانے میں مغل اپنے دشمنوں کے مزارات کو بھی معاف نہیں کرتے تھے اور شمالی وزیرستان میں مغل اقتدار اس زمانے میں موجود نہیں تھا بلکہ کبھی بھی مغلوں نے قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان میں اپنے قدم نہیں جمائے ۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف ، مندرجہ بالا تمام روایات کو مد نظر رکھ کر باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی عیدک کی جس پہاڑی پر پیر روشان دفن ہیں وہاں ایک نہیں دو قبریں ہیں جس میں ایک کو سر پریکڑا نیکہ ( یعنی سربریدہ پیر) اور دوسرے شیخ بایزید کہا جاتا ہے لیکن شیخ بایزید کا مطلب یہاں پیر روشان نہیں بلکہ یہ عیدک قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جس کو لوگ عرف عام بایزید کا شیخ کہتے تھے جو کہ وقت کے ساتھ بایزید شیخ بن گیا ۔ جو روایت سر پریکڑی پیر کے بارے میں یہاں مقامی لوگ نقل کرتے ہیں وہ اپنی جگہ درست اس لئے ہے کہ ایک تو اس کا اپنا نام کسی کو معلوم نہیں کیونکہ اس زمانے میں بھی رازداری کی خاطر اس کانام نہیں لیا جاتا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ اب تک کسی نے ایسی کوئی قبر نہیں بتائی ہے کہ جس پہ کھڑے ہو کر کہا جا سکے کہ یہ قبر پیرروشان کا ہے جبکہ عیدک میں جو قبر موجود ہے اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پیر روشان دفن ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اگر تاریخی حوالوں کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر باآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ پیر روشان کی آخری آرامگاہ شمالی وزیرستان کے عیدک گاؤں میں آج بھی موجود ہے البتہ اس کے سر کے بارے میں مصدقہ طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے کہ اس کا سر کہاں گیا ہے ۔ یہ ساری تفصیل میری ذاتی رائے ہے اور اس میں غلطی اور اختلاف کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن عیدک گاؤں کے مشران اور علماء و فضلاء سے جب بھی میری بات ہوئی ہے سب نے کچھ کمی بیشی کے ساتھ اس قسم کی روایات کو نقل کیا ہے جس کی تردید کیلئے ہمارے پاس اب تک کوئی تاریخی حوالے موجود نہیں ۔ وللہ اعلم بالصواب ۔
(حوالہ جات : خپل اتلان وپیژانیئی ایاز اسپزئی ، مولانا احسان اللہ عیدک ، قدیر داوڑ ، زبانی روایات )