فاروق محسود
تین نومبر 2015 سے ایک روز قبل یعنی دو نومبر کو صحافی زمان محسود نےخیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں دوسرے صحافی دوستوں کے ہمراہ اقوام متحدہ کی جانب سے صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا، لیکن انکے علم میں نہ تھا کہ محض 24 گھنٹے بعد انکے لیئے انصاف اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیئے احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔
زمان محسود تین نومبر2015 کی صبح ٹانک وانا روڈ پر اپنے گھر سے معمول کے مطابق ٹانک بازار میں واقع اپنے دفتر جارہے تھے کہ کوڑ کے مقام پر نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال میں خالق حقیقی سے جاملے۔
اس واقعے کو آٹھ سال ہونے کو ہیں لیکن زمان محسود کے قاتل آج تک گرفتار نہ ہوسکے، زمان محسود کے بھائی اسلم محسود نے بتایا کہ زمان محسود کے قتل کی ایف آئی آر ٹانک کے تھانہ ایس ایم اے میں درج ہے اور ابتک تحقیقات سے بات آگے نہیں بڑھی ۔ پولیس کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو کس پر شک ہے تو بتائیں ؟ اور ہم بار بار یہی کہتے ہیں کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ قاتلوں کو تلاش کریں ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔
زمان محسود ٹانک سے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ایچ آر سی پی سے بھی وابستہ تھے ۔ان سب نے زمان کے قتل کو اپنی اپنی اسکرین، اخبارات کے صفحات، اور اجلاسوں میں تو نمایاں کیا لیکن انکے لواحقین جن میں تین بیٹے اور دو بیٹاں اور بیوی شامل ہیں کی کسی قسم کا مدد نہیں کی۔
اسلم محسود کے مطابق صرف صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک اور پاک آرمی کی جانب سے کچھ مالی مدد کی گئی۔
اسلم محسود نے شکوہ کیا کہ زمان محسود جن اداروں کے لیے کام کرتے تھے انہوں نے کبھی اس بات کی فکر نہیں کی کہ ہمارے نمائندے کی بچے کیسی زندگی گزاررہے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تین صحافی ابتک قتل ہوچکے ہیں لیکن ابتک کسی ایک کے بھی قاتل گرفتار نہیں کیے جاسکے ۔
سنئیر صحافی دلاور خان وزیر جوکہ انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ منسلک ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان میں بعض بڑے اداروں کے علاوہ اکثر میڈٰیا آرگنائزیشنز نے قبائلی اضلاع کے صحافیوں کو تنخواہیں ودیگر مراعات سے محروم رکھا ہوا ہے۔ جسکی وجہ سے صحافتی معیار پر برے اثرات پڑے ہیں ۔ تقریبا تمام مقامی اخبارات، اور کچھ ریجنل ٹی وی چینلز تو نمائندوں سے اشتہارات جمع کرنے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ( جو صحافیوں کا کام نہیں ) اور اسکے لیئے صحافیوں کو بلیک میلنگ کا راستہ اپنانا پڑتا ہے جو ان صحافیوں کے لیئے خطرے کا باعث بنتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صحافت پر داغ لگنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
دلاور محسود مذید کہتے ہیں اکثر قومی ادارے تنخواہ اور مراعات مانگنے والے صحافیوں کی جگہ مفت میں کام کرنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
دلاور وزیر کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں ایک طرف صحافیوں کی جان کو خطرہ رہتا ہے دوسری طرف انکے بچوں کے اچھے مستقبل کی بھی کوئی امید نہیں کیونکہ صحافی قتل ہوجائے تو ان کا ادارہ مڑکر بھی نہیں دیکھتا۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے، ایسے میں صحافتی اداروں کی جانب سے صحافیوں کے جانی ومالی تحفظ کے بارے میں مسائل ملک میں روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ اکثر اداروں کی جانب سے یا تنخواہیں دی نہیں جاتی یا کم ہیں اور پھر یا انکو مہنوں تک تنخواہ نہیں دی جاتی۔ ایسے میں صحافی ذہنی طور پر بھی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔ کیونکہ وہ کام تو کرتے ہیں لیکن انہیں کام کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
قبائلی صحافی عبدالودود جوکہ فری لانسر ہیں، کہتے ہیں پتہ تھا کہ پاکستانی پشتو ٹی وی چینل تنخواہ نہیں دے رہے لیکن فری لانسنگ سے اپنے مالی مسائل کا حل نکالا اور ٹی وی چینل کو بطور شوق علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے جوائن کیا. اب 14 اگست سے پہلے ادارے کے افسر کی جانب سے ہدایت ملی کہ اشتہارات کا بندوبست کریں اور لوگوں اور اداروں سے اشتہار لیں۔ میرے لئے یہ بات بلکل نئی تھی کیونکہ اخبارات کا تو سنا تھا لیکن ٹی وی بھی اشتہارات نمائندوں سے مانگتے ہیں یہ سنا تو حیران وپریشان ہوگیا۔ اور خاموشی اختیار کی اور معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ 23 مارچ، 6 ستمبر،14 اگست، قائداعظم ڈے، عیدین ، اور دوسرے قومی دنوں کے اشتہارات لازمی لیکر دینے ہیں ورنہ ادارے سے فارغ کردیا جائے گا ۔
عبدالودود نے مذید بتایا کہ یہ سب معلوم ہونے کے بعد خود ہی ادارے کو خداحافظ کہہ دیا کیونکہ لوگوں اور ڈیپارٹمنٹس کو بلیک میل کرکے اشتہارات لینے کی صلاحیت میرے پاس بلکل نہ تھی ۔
ایسی صورتحال میں صحافی کیسے غیرجانبدار اور حقیقت پر مبنی صحافت کرے گا؟ اور اگر کوئی صحافی قتل کردیا جاتا ہے تو ادارے صحافی کے ساتھ ظلم پر بات تو کرلیتے ہیں لیکن انکے ادارے کی جانب سے لواحقین کی کسی بھی طرح کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ ایسے حالات سامنے انے کے بعد اب صحافیوں پر خاندان والوں کی جانب سے بھی صحافت چھوڑنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ٹانک سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ اکثر صحافی صحافتی اداروں سے کارڈ لوگو لے لیتے ہیں اور پھر بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے لئے انکم پیدا کرتے ہیں کیونکہ تنخواہ تو ادارے سے ملتی نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے پروفیشنل صحافیوں کے لیئے بھی صحافت کرنا مشکل ہوگیا ہے لیکن اب بھی ایسے صحافی موجود ہیں کہ جنہوں نے صحافت کا بھرم بچاکررکھا ہوا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ صحافتی اداروں کی جانب سے اضلاع کے اکثر صحافیوں کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں اور اگر جان چلی جاتی ہے تو ادارے سپورٹ نہیں کرتے؟؟۔ اس سوال کے جواب میں ذرائع ابلاغ اور ان کے کارکنوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے عہدے دار اقبال خٹک نے بتایا کہ ہرصحافیوں کو اپنے لیئے کچھ بینچ مارک اور معیار رکھنے چاہیئیں اور ایسے اداروں میں جہاں تنخواہ نہیں ملتی وہاں کام نہیں کرنا چاہیئے۔
اپنی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک ادارے کے ساتھ میں کام کرتا تھا جب انکی تنخواہیں کئی کئی ماہ تک دیر سے ملنی لگی تو میں نے وہ چھوڑ دیا کیونکہ اسکی وجہ سے میراپیشہ وارانہ کام متاثر ہورہا ہے۔ لہذا صحافی جتنا پیشہ ورانہ انداز اپنائیں گے اتنے ہی عزت ہوگی اور اتنی ہی اچھے صحافی بن پائنگے۔
انہوں نے مذید کہا ضروری ہے کہ پیشہ ور صحافی بنیں اب اکثر اضلاع کے صحافی ایک طاقت اور شناخت کی خاطر بھی کام کررہے ہیں۔ مزدوروں کے حقوق کے لیئے قانون موجود ہیں لیکن صحافی اس قانون کا سہارا بھی نہیں لیتے ۔میرے خیال میں انہوں نے یہ یقین کرلیا ہے کہ اگر یہ نوکری چھوڑدی تو دوسری نہیں ملنی۔
انہوں نے مذید بتایا کہ حکومت کی جانب سے فاٹا انضمام کے بعد صحافیوں کی تحفظ اورانصاف کے لئے کیے گئے اقدامات کے بارے میں رپورٹ پر کام جاری ہے اور جلد اس پر فریڈم نیٹ ورک کی تفصیلی رپورٹ منظرعام پر آجائے گی لیکن جو معلومات ہمیں روزانہ کی بنیاد پر مل رہی ہیں اسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے حالات میں صحافت مشکل ہورہی ہے۔
ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹ کے نئے سربراہ اور محسود پریس کلب کے صدر اشتیاق محسود کہتے ہیں کہ صحافیوں کے حقوق کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں اور حکومتی سطح پر اس پر بات چیت بھی ہورہی ہے اور ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جائے تو مسائل میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ قبائلی اضلاع کے تمام پریس کلبز کے صدور سے بھی اس بارے میں مشاورت جاری ہے کہ بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے صحافیوں کے ساتھ انکے اداروں سے بات کی جائے اور اگر کوئی صحافی خود ہی تنخواہ کی بات نہیں کرتا تو ایسے صحافی کو پریس کلب کی ممبرشپ نہیں دینی چاہیئے کیونکہ ایسے لوگوں کی وجہ سے سسٹم مزید خراب ہورہا ہے اور مفت میں کام کرنے کا کلچر بڑھ رہا ہے جسکی وجہ سے پیشہ ورانہ صحافت برائے نام ہوتی جارہی ہے۔
صحافیوں کو تنخواہیں، مراعات نہ دینے والے اداروں کے خلاف خیبر پختون خواہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کیا کررہا ہے؟ اور وہ صحافی جو دوران ڈیوٹی قتل کردیئے جاتے ہیں ان کے لواحقین کے لئے صوبائی حکومت کیا اقدامات کررہی ہے۔ ان سوالوں کے جواب میں ریجنل انفارمیشن ڈائریکٹر ثناء اللہ بیٹنی نے بتایا کہ مقامی سطح پر ہم نے تمام اخبارات، ریڈیو کو پابند کیا ہے کہ وہ نمائندوں کو تنخواہیں ادا کریں، اور ایسے تمام اخبارات کے سرکاری اشتہارات بند کیے گئے ہیں جو تنخواہیں نہیں دیتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس کوئی بھی صحافی آج تک یہ شکایت لیکر نہیں آیا کہ انہیں تنخواہ نہیں ملتی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ لوکل اخبارات تنخواہیں نہیں دے رہے۔ صحافیوں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دوران ڈیوٹی دہشتگردی کے واقعات میں قتل ہونے والے افراد کو شہداء پیکج حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے ۔
اکثر صحافی اس امید میں ان نامساعد حالات میں کام کررہے ہیں کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آجائے گا تو صحافیوں کو بھی اچھے دن دیکھنا نصیب ہونگے۔