فاروق محسود
“یہ خبر سوشل میڈیا پر ڈال دیں تو شاید پولیس انتظامیہ جوکہ اپنے پیٹی بند بھائی کو بےیارومددگار چھوڑ چکی ہے انکو ہوش اجائے”
یہ الفاظ ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال کے ٹراما سنٹر میں زیرعلاج پولیس سپاہی الیاس کے کزن عرفان محسود کے ہیں۔ عرفان محسود سخت غصے اور تکلیف سے گزر رہے ہیں،کیونکہ ایک طرف کزن موت کے منہ میں اور دوسری طرف پولیس محکمہ کی جانب سے الیاس کو ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال بہت ہی دیر سے پہنچایا گیا۔
عرفان کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقہ وانا میں پولیس سٹیشن پر 20 دسمبر کو رات گئے نامعلوم افراد کے حملے میں پولیس اہلکار الیاس شدید زخمی ہوا جس کو دوپہر دو بجے وانا ایف سی کیمپ کے ہسپتال سے سخت تشویشناک حالت میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال بذریعہ ریسکیو ایمبولینس ریفر کیا گیا۔
عرفان نے مذید کہا کہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ سر پر گولی لگنے والے شدید نوعیت کے زخمی اہلکار کو بذریعہ ہیلی کاپٹر ملک کے کسی اچھے ہسپتال منتقل کیا جاتا لیکن انکو تو ڈیرہ اسماعیل ہسپتال بھی بے یارومدگار چھوڑا گیا اور تقریبا پانچ گھنٹوں میں ڈیرہ اسماعیل خان پہنچایا گیا، اور یہاں پھر ہم خاندان والوں نے ہسپتال داخل کیا، اور پھر یہاں سے اسلام آباد ریفر کردیا گیا، ایمبولینس کے لیئے تو جواب ملا کہ پولیس اہلکار کو لے جانے کے لیئے باقاعدہ اجازت نامہ درکار ہوگا جس پر کام کررہے ہیں۔
عرفان نے کہا کہ اس وقت بہت افسوس ہوا کہ جب ہم ہاتھ پے ہاتھ رکھے الیاس کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہے تھے، ملکی میڈیا پر واقعے کی خبر تو فوری چلی لیکن بعد میں زخمی اہلکاروں بارے کوئی بات نظرنہ ائی لیکن شکر ہےکہ صحافی دوستوں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹس نے جب یہ خبر سوشل میڈیا پر ڈال دی تو ڈیرہ اسماعیل خان پولیس، وزیرستان پولیس انتظامیہ سب جاگ گئے اور بل آخر ایمبولینس پنچ گئے اور اسلام آباد پمز ہسپتال پہنچایا گیا۔
عرفان محسود کا کہنا ہے کہ وزیرستان وملحقہ علاقائی مسائل اب سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت جلد حکام بالا کی نظر میں آجاتے ہیں اور حکام فوری ایکشن لے لیتے ہیں
خیبرپختون خوا کا قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان جوکہ وزیرستان کا جنوبی حصہ اور شمال مغربی پاکستان کا ایک پہاڑی علاقہ ہے جو تقریباً 6620 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور اس کی آبادی 679,185 افراد پر مشتمل ہے، 2017 کی مردم شماری کے مطابق 15 سے 35 سال کی عمر کے نوجوانوں کل آبادی کا 31 فیصد ہیں۔ 9/11 کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ سے جنوبی وزیرستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور اکتوبر 2009 میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا جس سے اعداد وشمار کے مطابق ایک لاکھ سے زائد خاندان آئی ڈی پیز ہوئے اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے، اور 2018 میں متاثرین کی واپسی کا عمل مکمل کیا گیا۔ لیکن تاحال لوگوں کو مکانات معاوضے نہ ملنے اور دوسرے مسائل کا سامنہ ہے۔
دیر سے آئے لیکن آئے تو سہی، وزیرستان میں بھی انٹرنیٹ سہولت جنوری سال 2021 میں سابقہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ وانا میں اعلان کیا گیا تھا لیکن آج بھی اسی فیصد سے زائد علاقہ انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہے۔
جنوبی وزیرستان میں دہشتگردی کے بعد لوگ جب اپنے علاقے واپس گیے تو انکے مسائل مین سٹریم میڈیا پھر کم ہی دیکھنے کو ملے تب سوشل میڈیا کو استعمال کرکے نوجونوں نے حقوق کے حصول کی جدوجہد شروع کی اور سب سے پہلے انٹرنیٹ سروس کا مطالبہ کیا گیا جوکہ دیر آئے درست ہے مگر پورا ہوا اور اب نوجوان علاقائی مسائل سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر کرتے ہیں
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گذشتہ دہائی میں ایک چیز جو دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں، معاشرتی رویوں، حکومتی پالیسیوں اور سیاست پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی ہے وہ ہے سوشل میڈیا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں ہونے والے بڑے واقعات سامنے آئے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئیں، وہیں سوشل میڈیا خود بھی ایک دہائی سے ارتقا کے مراحل سے گزارا۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بڑی تبدیلی سنہ 2010 کے بعد سے دیکھنے میں آئی جب پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔
اس سے پہلے تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے بجائے روایتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی اپنے پیغامات کا پرچار کرتی تھیں لیکن گذشتہ دہائی نے سب کچھ بدل دیا
صحافی اسلام گل افریدی، جوکہ بنیادی طور ریڈیو جرنلسٹ ہیں، انکا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ویب سائٹ وزیرستان ٹائمز کے لیئے اردو میں کچھ فیچرسٹوریز کی جسکا بہت اچھا فیڈ بیک ملا جسکے بعد سے وہ اب مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے لیئے فیچرسٹوریز کرچکے ہیں اور اب تک کئی قومی صحافتی ایوارڈ اپنے نام کرچکے ہیں، اسلام گل کہتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا ہی کے بدولت ایسا ممکن ہوا کہ میں ریڈیو سے پرنٹ میڈیا کی طرف آیا اور ایوارڈز حاصل کیے ۔
اسلام گل کہتے ہیں کہ جہاں بڑی سیاسی جماعتوں،صحافیوں اور ریاستی اداروں نے اپنے مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، وہیں ایسی چھوٹی سیاسی پارٹیوں اور گروہوں جنھیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر عموماً جگہ نہیں ملتی تھی، نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل کی جن میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جوکہ جنوبی وزیرستان سے تحریک اٹھی اور دوسری فیمینسٹ تحریکیں سرِفہرست ہیں۔
حیات پریغل محسود جنکا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور سوشل میڈیا یکٹویسٹ ہیں کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان کے بہت سارے ایسے مسائل جنکو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر جگہ نہیں ملتی انکو سوشل میڈیا پر لانے کے بعد حکومت حرکت میں اجاتی ہے۔ حیات مذید کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ لوگوں کے مسائل جیسے کہ لوگوں کے تباہ شدہ املاک کے نقصانات کے ازالے، بارودی سرنگوں کے دھماکے جیسے اہم مسائل کو مین سٹریم میڈیا پر کوریج نہ ہونے کے برابر تھی لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ان اہم مسائل کی نشاندہی ہوئی اور بہت حد مسئلہ حل بھی ہوچکا ہے۔
حیات پریغل مذید کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے کورونا وباء کے دوران غریب خاندانوں کے لیئے پچاس لاکھ سے زائد کی خطیر رقم جمع اور پھرتقسیم کی۔
اسکے علاوہ محکمہ تعلیم میں دہشت گردی کی جنگ کے دوران گذشتہ پندرہ سالوں میں بوگس بھرتی اساتذہ کے خلاف آواز بلند کی جسکا فائدہ یہ ہوا کہ سینکڑوں بوگس اساتذہ پر مقدمات درج کی گئی۔ اور ان مسائل کو پاکستان کی مین سٹریم میڈیا پر کوریج نہیں دی جارہی تھی۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی جلال محسود، پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے ساتھ وابسطہ ہیں، کہتے ہیں کہ بہت سارے ایسے عوامی اجتماعات، مسائل، کو ٹی وی چینل پر کوریج نہ ملنے کی وجہ سے کہ انکو بعض اوقات عوامی سخت ردعمل کا
سامنہ کرنا پڑتا ہے۔
” میں تقریبا ہر مسئلے،احتجاج وغیرہ پر رپورٹ بیج دیتا ہوں لیکن اکثر انکو جگہ نہیں ملتی جسکے بعد ہمیں عوام کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے”
جلال مذید کہتے ہیں کہ شرمندگی سے بچنے کے لیئے اکثر صحافیوں نے اب سوشل میڈیا پر پیجز بنائیں ہیں اور اگر کوئی رپورٹ نہ چلے تب اسے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر ڈال دیتے ہیں تو تھوڑے بہت عوامی سخت ردعمل میں کمی اجاتی ہے لیکن لوگ اب مین سٹریم میڈیا پر انحصار کم ہی کررہے ہیں
سنئیر قبائلی صحافی ناصر داوڑ جنہوں نے پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور نمائندہ خصوصی قبائلی علاقہ جات کام کیا اور اجکل پشاور میں وحدت نیوز کے ساتھ بطور نیوز ایڈ یٹر منسلک ہیں، سے جب سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ قبائلی علاقے بالخصوص وزیرستان کے لوگوں کی اوازوں کو مین سٹریم میڈیا پر کوریج ملتی نہیں اور اگر ملتی بھی ہے تو بہت کم، تو انہوں نے اس بارے کہا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر کوریج نہ ملنے کی صرف قبائلی اضلاع یا وزیرستان کے لوگوں کا شکوہ نہیں بلکہ پورے خیبرپختون خوا کے لوگوں کا بھی ہے، چونکہ پاکستانی ٹی وی چینلز کا بنیادی مسئلہ ریٹنگز کا ہے اور ریٹنگز بوسٹرز کراچی،لاہور،اسلام اباد، فیصل اباد، پنڈی، وغیرہ جبکہ پشاور اور کوئٹہ میں بھی لگے ہیں لیکن بہت کم ، اور جہاں سے ریٹنگز زیادہ آتی ہو وہاں کی کوریج زیادہ کی جاتے ہے، لہذا ظاہر ہے کہ جس علاقے میں ریٹنگز زیادہ آتی ہو وہاں اگر سڑک پر گدھا بس کے نیچے آجائے اور دوسری طرف دس لوگ مارے گئے ہوں تو ٹی وی چینلز عموما ریٹنگز کو ترجیح دیتے ہیں اور سڑک پر گدھے کو بس کی ٹکر کو زیادہ وقت مل جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا اکثرمالکان سرمایہ دار اور کارخانہ دار ہیں جوکہ اپنے کام کے حوالے سے ہی سوچتے ہیں۔
ناصر داوڑ مذید کہتے ہیں کہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا سیاسی پارٹیوں کا حصہ بن چکے ہیں، اب ہر پارٹی نے بھی سوشل میڈیا پر ٹیمز مقرر کردیے ہیں، کیونکہ انکو وہاں سے اب رسپانس اچھا مل جاتا ہے ۔
پاکستان نہ بلکہ دنیا میں پی ٹی آئی سوشل میڈیاٹیم ایک موثر ٹیم کھلایا جاتا ہے، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پی ٹی آئی کو اثرورسوخ ملا۔ ایسے ہی پشتون تحفظ موومنٹ کو بھی سوشل میڈیا پر پذیرائی ملی اور آب اکثر مقامات پر جب انکا جسلہ،جلوس،احتجاج ہو تو وہاں انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی۔
بنیادی طور پر مین سٹریم میڈیا چاہیئے وہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ اب کنٹرولڈ ہے اور پروفیشنل لوگوں کی کمی ہے جسکی وجہ سے لوگ اب پاکستانی مین سٹریم میڈیا سے شکایات کرتے دیکھائے دیتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں سوشل میڈیا عوام کے درمیان مختلف ذرائع سے مواصلاتی روابط کا زرئعہ بن چکا ہے۔ جو موجودہ دور کے معاشرے کے مزاج، خیالات، ثقافت اور عام زندگی کی کیفیات پر دورس اثرات کا حامل ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال اگر ضروریات کے تحت مثبت طریقے سے کیا جائے تو یہ کسی بھی معاشرے میں نعمت سے کم نہیں۔ سوشل میڈیا نوجوانوں کو اپنے سحر اور رنگینیوں میں جکڑے ہوا ہے۔ 12 سال سے 35 سال کے افراد میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان بے انتہا حد تک بڑھ چکا ہے۔ جن نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے مثبت پہلو کو اپنا کر استعمال کرنا سیکھ لیا ہے وہ اس سے بے پناہ مالی و معاشرتی فوائد حاصل کررہے ہیں۔
حیات پریغل کہتے کہ سوشل میڈیا کو اگر صرف جذبات اور احساسات کی نظریے سے استعمال کیا جائے گا تو اسکی وجہ سے مختلف مسائل کا سامنہ بھی کرنا پڑسکتا ہے، اور کہتے ہیں کہ میں خود اسکی ایک مثال ہوں کہ میں نے سوشل میڈیا پر علاقائی عوامی اہم مسائل پر سخت رویہ اپنایا جسکی وجہ سے جیل بھی جانا پڑا اور چار سال تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پر بھی مجبور ہوا۔ لہذا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے وقت انسان ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔