فاروق محسود
گذشتہ دہائی میں جو چیز دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں، معاشرتی رویوں، حکومتی پالیسیوں اور سیاست پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی ہے وہ ہے سوشل میڈیا۔
سال 2010 سے پہلے تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں یا سماجی تنظیمیں یا تحریکیں سب سوشل میڈیا کے بجائے روایتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی اپنے پیغامات کا پرچار کرتی تھیں لیکن گذشتہ ایک دہائی میں سب کچھ بدل گیا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان تحریک انصاف سرفہرست ہے نے سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیئے بھرپور استعمال کیا۔ وہیں ایسی اور سماجی تحریکیوں نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیا جنکو پرنٹ والیکٹرونک میڈیا پر کوریج نہیں ملتی تھی ان میں پشتون تحفظ موومنٹ سرفہرست ہے۔ صرف یہ نہیں خیبرپختون خوا کے قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وزیرستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمزصحافیوں کی حفاظت کا بھی ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سکندر حیات کا کہنا ہے کہ یہ جملہ انتہائی عجیب سا لگتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیرستان میں اکثر مسائل کو ہمارے مین اسٹریم میڈیا پر یا تو جگہ نہیں دی جاتی یا پھر ان کے چلانے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ایسے میں مقامی صحافی سوشل میڈیا پر عوام کی آواز بلند کرتے ہیں۔
قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وشمالی وزیرستان دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار رہے ہیں۔ کئی چھوٹے اور بڑے فوجی آپریشن ہوئے جن میں آپریشن راہ نجات اور آپریشن ضرب عضب شامل ہیں۔دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔
حیات کہتے ہیں کہ جنگ سے متاثرہ لوگوں کوبہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بطور صحافی اگر ہم انکی آواز میڈیا پر نہیں لاتے تو انکی طرف سے ہمیں کافی غصے کا سامنا کرنا پڑتاہے اور رپورٹر کا کام خبر رپورٹ کرنا ہوتا ہے ۔ ٹی وی پر چلانا نہ چلانا ہمارے بس میں نہیں لیکن یہ چیز عام لوگوں کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جسکی وجہ سے اکثر ہمیں احتجاج، جلوس، وغیرہ میں لوگوں کی جانب سے برا بھلا سننے کو ملتا ہے لیکن سوشل میڈیا خاص کر سماجی ویب سائٹس کی وجہ سے اب اکثر صحافیوں نے پیجز بنائے ہیں اور اگر کوئی اسٹوری مین اسٹریم میڈیا پر نہیں چل پاتی تو اسے ہم اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چلا دیتے ہیں اور پھر کم ازکم ہم لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ” جو ہمارے بس میں ہے وہ ہم نہیں کردیا باقی ہمارے میڈیا اداروں کی پالیسی کے مطابق خبر نہیں چلی” تو تھوڑا بہت عوامی غصے میں کمی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ ڈیوا ریڈیو کے نمائندہ عدنان بیٹنی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ بننے سے پہلے یہ چند نوجوانوں پر مشتمل ایک مقامی سطح کی تحریک تھی اور اس وقت وہ اپنے مطالبات کے لیئے احتجاج کرتے، لیکن مین اسٹریم میڈیا پر کوریج نہیں دی جاتی تھی لیکن ان نوجوانوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا اور پھر اس تحریک کو ایسی جان ملی کہ دیکھنےوالے دیکھتے ہی رہ گئے۔ عدنان بیٹنی کہتے ہیں کہ اکثر پاکستانی میڈیا کے صحافیوں کو ان نوجوانوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرناپڑتا تھا کہ جب وہ کسی احتجاج کی کوریج کے لیئے جاتے اور پھر وہ نشر نہ ہوتا، اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ انکو ایسے احتجاجی جلسوں میں کوریج سے روکا بھی کیا گیا، لیکن سوشل میڈیا پھر جب صحافی انکے احتجاج کو کوریج دینے لگے تو یہ سوشل میڈیا ہی واحد راستہ تھا کہ اس نے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا صحافیوں پر اعتماد بحال کیا۔
سوشل میڈیا نے جنوبی وزیرستان کے رہائشیوں کی آواز اٹھانے میں مختلف طریقوں سے مدد کی ہے بہت سارے ایسے واقعات اسکی مثال ہیں، گذشتہ کئی عرصے سے جنوبی وزیرستان میں دہشتگردی کے واقعات رونما ہورہے تھے، اور لوگوں نے جب ان واقعات بارے احتجاجی مظاہرے کیے۔rرواں سال جنوری کے مہنے میں وانا میں 8 روز تک دھرنہ بیٹھا رہا لیکن 6 روز تک اسے مین سٹریم میڈیا پر کوریج نہیں ملی لیکن مسلسل سوشل میڈیا پر کوریج کے بعد مین سٹریم میڈیا پر خبریں چلنے لگی اور پھر دو روز بعد ہی دھرنہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور دھرنہ ختم کردیا گیا۔ ایسے ہزاروں مثالیں ہیں۔اور سوشل میڈیا نے عوام کو اور صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا کی کوریج کی عدم موجودگی میں دنیا تک آپنی اواز/ لوگوں کی آوازوں کو پہنچانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی رضیہ محسود کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز صحافیوں کے لیئے اپنی خبر چلانے کاایک اچھا ذریعہ بن چکے ہیں
رضیہ مزید کہتی ہیں کہ قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وزیرستان میں بہت ساری ایسی خبریں ہوتی ہیں کہ جن سے بہت سارے لوگ جڑے ہوتے ہیں لیکن وہ مین اسٹریم میڈیا پر نشر نہیں کی جاتیں تو اسے سوشل میڈیا پر شئیر کردیا جاتا ہے جسکے بعد اکثر وہ خبر مین سٹریم میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتی ہے۔
رضیہ مزید کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر خبر جب ہم شئیر کرتے ہیں تو ہمیں اس خبر کی حساسیت اور اہمیت کا پتہ ہوتا ہے اور مقامی ہونے کے ناطے اسی لحاظ سے شئیر کرتے ہیں۔ اکثر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ خبریں جب مین اسٹریم میڈیا پر چل جاتی ہیں تو انکی وجہ سے صحافیوں کے لیئے مسائل بنتے ہیں۔
صحافی جلال محسود جنکا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے ساتھ منسلک ہیں کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کی وہ خبریں جیسا کہ بم دھماکا، دہشتگردی کے واقعات یا پھر سیاسی دوروں وغیرہ کو پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر کوریج تو مل جاتی ہے لیکن عوامی مسائل، احتجاج وغیرہ کو کوریج نہیں ملتی۔ دوسری جانب عوام کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ آپ صحافی ہیں تو ہمارے مسائل کو کوریج دیں، ایسے موقع پر ہمارے پاس صرف سوشل میڈیا ہی واحد زریعہ رہ جاتا ہے۔
جلال مذید کہتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ احتجاج جلسوں یا عوامی مسائل کو جب ہم مین سٹریم میڈیا پر کوریج نہیں دیتے تو مقامی سطح پر ہمارے خلاف اوازیں اٹھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر پھر ہم سوشل میڈیا پر انکو کوریج دے دیتے ہیں تو ہمیں پھر ان لوگوں کی جانب سے سراہا بھی جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ محسود قبائل کا ایک احتجاجی دھرنا بائیس روز مطالبات کے حل کے لیئے چلا اور اسکو ہم ٹی وی پر کوریج دینے میں ناکام رہے لیکن اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر کوریج دی تو وہاں اس دھرنے کے اسٹیج پر ہمارے بارے میں اچھے تاثرات سامنے آئے جس سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی چھپ گئی۔
مین سٹریم میڈیا مختلف پسندیدگیوں اور عموما جمعی رائے کے تاثرات کے مطابق کام کرتا ہے۔ پاکستان میں ٹی وی چینلز کا ریٹنگ سسٹم ہے، اورریٹنگز چینلز اکثر بڑے شہروں کے علاوہ کئی نہیں اس وجہ سے بھی بڑے شہروں کی چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔
محسود پریس کلب کے صدر اشتیاق محسود اس بارے میں کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں مین سٹریم میڈیا پر سیلف سنسر شپ کی مختلف وجوہات ہیں، اکثرموضوعات کا کسی نہ کسی لحاظ سے سیکورٹی اداروں، پر تشدد واقعات، اور بعض علاقائی قومی واقعات سے تعلق ہوتا ہے ۔جنوبی وزیرستان میں اگر ہم پی ٹی ایم کے احتجاج جلسے جلوس کی مثال لیں تو انکا احتجاج اکثر ان واقعات کی سے جڑا ہوتا ہے جن میں کسی نہ کسی لحاظ سے سیکورٹی اداروں کی بھی بات کی گئی ہوتی ہے۔
اشتیاق محسود مذید کہتے ہیں کہ وزیرستان سے ان موضوعات کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جنکا اثر پورے ملک پر پڑتا ہو جیسے کہ کوئی بم دھماکہ، ڈرون حملہ، یا کوئی اور دہشتگردی کا واقعہ ، اس لیئے دوسرے عوامی مسائل کو اگر جگہ مل بھی جاتی ہے تو وہ بہت کم ہوتی ہے۔
اشتیاق محسود مذید کہتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا سے اب عوامی توقعات میں کمی آئی ہے جسکی بنیادی وجہ سٹیزن جرنلزم پر لوگوں کا انحصار ہے۔ لیکن سٹیزن جرنلزم کی وجہ سے اب اکثر لوگوں کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ سٹیزن جرنلزم/ سوشل میڈیا پر کوئی شخص یا ادارہ اپنے عقائد،مفروزوں یا جذبات کی بنا پر خبروں کو شائع کرتا ہے جن کا اکثر حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا ایسی خبریں عموما تشدد یا غلط تشہیر کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں بےچینی پیدا کرتی ہیں۔
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اسد عزیز محسود کہتے ہیں موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک طاقتورترین ہتھیارکے طورپرسامنے آیاہے۔اس کی اہمیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے جہاں اس کے بہت سے فائدے ہیں وہاں کئی نقصانات بھی ہیں۔ اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ ہم اس کامنفی استعمال کررہے ہیں یا مثبت؟ منفی استعمال کی وجہ سے سائبرکرائم واقعات میں بھی روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اورسوشل میڈیا کے منفی استعمال نے معاشرے میں نفرت ، بد تہذیبی اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کا مثبت انداز میں استعمال کریں تاکہ سیاسی کشیدگی، ڈوبتی معیشت اور تقسیم در تقسیم ہوتے معاشرے کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچایا جاسکے۔