علی ارقم
جدید جنگوں میں دیکھیں، تو اب جنگ لڑنے والے کبھی نہیں ہارتے، کیونکہ دونوں فریق نیریٹیو کنٹرول کرتے ہیں، جنگ میں وہی ہارتے ہیں جو اس کا ایندھن بن جاتے ہیں. وہ اپنی کہانی سنانے کیلئے زندہ نہیں بچتے، اس لیے زندہ بچ جانے والے ان کے گرد گلوریفائنگ قسم کا نیریٹیو بنا لیتے ہیں، وہ نیریٹیو جس کا ان ایندھن بننے والوں کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوگا.
کرس ہیجز ایک معروف امریکی صحافی اور جنگی رپورٹر رہے ہیں، وہ اپنی کتاب (War Is a Force That Gives Us Meaning) میں کہتے ہیں، جنگ کے زخم خوردہ لوگ ہی اصل جنگ کو جانتے ہیں، وہ جنہوں نے شکست کا ذائقہ چکھا ہو”
ہیجز کے مطابق،”(جنگ کے زخم خوردہ لوگ ہی ہیں جو ) ان کھوکھلے نعروں کی حقیقت دیکھ لیتے ہیں جو عزت، غیرت’ اور حب الوطنی’جیسے الفاظ استعمال کرکے ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ زخمیوں کی کراہیں، بے مقصد قتل و غارت، جنگ کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی ہوس اور ماتم کناں آوازوں پر پردہ ڈالا جا سکے. ”
جیسے ڈاکٹر فیروز احمد نے ایسا کچھ لکھا تھا کہ ڈراموں اور فلموں میں غربت کے روایتی مناظر فلما فلما کر اس کے حوالے سے حساسیت ختم کردی ہے، اب حقیقت میں ایسے مناظر سنیں دیکھیں تو فلمی سے لگتے ہیں.
ویسے ہی جب جنگ کی دہشت گردی کے دنوں میں ٹی وی پر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دھماکوں کی خبر کے ساتھ گوگل میپ پر دھماکہ اینی میٹ کرکے دکھایا جاتا، یا امریکی ڈرون حملوں کی خبر کے ساتھ ٹی وی چینلز پر اینی میٹڈ امریکی ڈرون جھونپڑی نما گھر کو دھماکے سے زمین بوس ہوتے یا سڑک پر دوڑتی ایس یو وی کے پرخچے اڑاتے دکھاتا تو دیکھنے والے جانے انجانے میں کچھ محسوس کیے بغیر ہی اس خبر کو ہضم کر جاتے، جیسے اب غ ز ہ میں دھماکے سے ہوا میں اڑتے انسانوں کی تصاویر وڈیوز یا بچوں کے خون آلود چہروں کو اے آئی سے امیجن کرکے پوسٹ کرتے ہیں.
ویسا ہی کچھ موجودہ پاکستان انڈیا کی جنگی فضا کا بھی حال ہے، جہاں سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کا سامان فراہم کرتے ٹی وی چینلز، یوٹیوبرز اور پھر مذہبی یا قوم پرستانہ (ہند وپاک میں انہیں الگ کرنا بھی کافی مشکل ہے) جذبے سے لیس سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں نے اسے ایک تفریح یا مقابلہ بنا کر رکھ دیا ہے، جنگی نعرے بازی بلکہ ایک طرح کی نیہل ازم (nihilism) کی ستائش جاری ہے.
شاید ہم روڈ ٹو ہیل کی آرائش اچھی میمز کے ساتھ کررہے ہیں
جنگ بھی اب تماشا ہے
اس سارے منظر نامے میں فرانسیسی مارکسی دانشور گائے ڈیبارڈ (Guy Debord) کا (The Society of the Spectacle) کا تصور بھرپور طور پر واضح ہوتا ہے،
ڈیبارڈ کے مطابق، آج کا انسان حقیقت کی جگہ نمائشی تصاویر، مناظر، اور میڈیا کے تخلیق کردہ جذباتی تماشے کو اصل سمجھنے لگا ہے۔ جنگ ہو یا انسانی المیے، سب کچھ اب صرف ایک “اسپیکٹیکل” ہے.
ایک ایسا منظر جسے دیکھ کر لوگ چند لمحوں کے لیے مشتعل ہوتے ہیں، میمز بناتے ہیں، غصے یا فتح کے ایموجی لگاتے ہیں، اور پھر اگلے تماشے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔اس نقار خانے میں حقیقی دکھ، اذیت، کراہیں دب کر رہ گئی ہیں.