شہریار محسود
خیبر میں منعقدہ پشتون جرگے نے بیس بائیس نکاتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔ روایات کے مطابق کسی بھی پشتون جرگے کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے جو مشران کے ان فیصلوں پر مبنی ہوتا ہے جو منعقدہ جرگے میں کیے جاتے ہیں۔
جرگے کے حوالے سے پاکستان بھر سے طرح طرح کے خیالات سامنے آرہے تھے۔ کئی جانکار یہاں تک سوچ رہے تھے کہ ضلع خیبر میں منعقد ہونے والے اس جرگے میں علیحدگی کی بات ہو سکتی ہے یا جرگہ ملک سے علیحدگی کا کوئی بیانیہ جاری کر سکتا ہے۔
اسی طرح کی سوچ بعض پشتون حلقوں میں بھی پائی جاتی تھی جن میں افغانوں کا ایک بڑا حلقہ شامل ہے۔ افغانوں کی سوچ فطری کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں کئی ایسی چیزیں ہیں جو ایک عرصے سے چلی آرہی ہے لیکن زمینی حقائق کیا ہیں؟ اس حوالے سے بہت کم لوگ بات کرپا رہے ہیں۔
ایک طویل جنگ سے متاثرہ پشتونوں کا ایک حلقہ بھی انتہائی قدم کی امیدیں لگائے رکھے ہوا تھا اور اس حوالے سے سامنے آنے والی باتوں سے یہ ظاہر بھی ہو رہا تھا لیکن ہماری سوچ اس حوالے سے بالکل الگ تھی کیونکہ ہر کسی نے زمینی حقائق جانے بغیر نتائج اخذ کیے تھے۔
مایوسی کیوں ہونی تھی؟ وجہ جاننے کا پیمانہ بہت ہی سادہ تھا لیکن ضروری یہ ہے کہ آپ نے آنکھیں کتنی کھلی رکھی ہیں اور آپ پشتون کلچر کو کس حد تک سمجھتے ہیں؟
کسی بھی جرگے میں بنیادی کردار علاقائی مشران کا ہوتا ہے اور وہ مشران شاید ہی کبھی میڈیا پر آئے ہوں لیکن ان کی باتوں کا الگ وزن ہوتا ہے جس کو کوئی بھی لیڈر یا مشر رد نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی لیڈر یا مشر اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط کر سکتا۔
خیبر جرگے میں ہر علاقے سے تمام چیدہ چیدہ مشران اور ملکان حصہ لے رہے تھے جو موجودہ حالات سے تنگ ضرور ہیں اور مسائل کے حل کے لیے سخت فیصلوں کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار نظر آتے ہیں۔ لیکن کوئی اتنا بڑا فیصلہ جو ریاست مخالف ہو کسی کے وہم و گمان میںبھی نہیں۔
حیران کن طور پر جرگے میں ان لوگوں کی اکثریت بھی شامل ہوئی ہے جو سالوں سے کسی نا کسی طرح اداروں سے منسلک رہے ہیں اور تاحال منسلک ہیں۔ ذاتی طور پر میرے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا تھا کہ اس جرگے کو جس انداز میں متنازع بنانے کی کوشش کی گئی تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیسے جوش و خروش سے جرگے کا حصہ بن سکتے ہیں ؟ ان سوالات کا جواب تو وقت دے گا لیکن فیصلہ سازوں کو سوچنا ضرور چاہیے کہ آنے والے دنوں میں حالات ہماری سوچ سے بھی ذیادہ تیزی سے بدل سکتے ہیں۔
خیبر جرگے میں ملک سے دوری یا علیحدگی کا کوئی اعلان نہیں ہوا مگر پھر بھی بعض فیصلوں اور مطالبات پر تحفظات ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پچھلے بیس، پچیس برسوں کے حالات کو مخصوص اور مصنوعی خبروں کے تناظر میں سمجھنے والوں کےلیے شاید یہ سمجھنا مشکل ہے۔
اس اعلامیے میں ریاستی اداروں کے کردار پر تنقید کی گئی ہے، کچھ باتیں ریاست مخالف بھی لگی ہوں گی لیکن اگراسے قومی جرگہ سمجھا جارہا ہےتو بات چیت بہت سے مسائل کا حل اب بھی نکال سکتی ہے۔
ملک میں پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی کے مقاصد ایک ہونے کے حوالے سے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے جو کہ درست نہیں ہیں۔ اس حوالے سے بھی اس اہم نقطے کو نظر انداز کیا گیا کہ پی ٹی ایم کی نظریاتی اساس قوم پرستی پر مبنی ہے جبکہ ٹی ٹی پی قوم پرستی کو کفر سمجھتی ہے۔ ٹی ٹی پی اس بات کا برملا اظہار بھی کرتی آئی ہے اور اس لیے موجودہ حالات میں ایسا بالکل بھی ممکن نظر نہیں آرہا تھا کہ ایسے غیر فطری خدشات درست ثابت ہوں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ غلط فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سےبڑا نقصان ہوا ہے۔ اس کی بڑی مثال خیبر میں جاری اسی جرگے میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی دی جا سکتی ہے جس میں تین افراد جان سے گئے۔ ایسے ہی واقعات کی وجہ سے تلخیاں بڑھتی ہیں اور نفرتیں بڑھنے کے بعد ایک دوسرے کو تکلیف دینے کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کیا جاتاہے۔ موجودہ تاریخ تک تو ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کی سوچ میں بہت بڑا خلیج ہے البتہ دو صورتوں میں قربتیں بڑھ سکتی ہیں ایک یہ کہ پشتون علاقوں میں حالات خراب تر رہیں اور دوئم یہ کہ ٹی ٹی پی اپنے بنیادی نظریات پر کافی حد تک نظر ثانی کرے۔
پشتون جرگے کے حوالے سے گزارش یہ ہوگی کہ ڈنڈے سے اس کے منتظمین کو سبق سکھانے یا جواب دینے کافائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ کیونکہ یہ جرگہ کسی تنظیم یا سیاسی جماعت کا نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس جرگے کو مختلف سیاسی جماعتوں، قومیتوں نے اپنایا تھا۔ اس لیے اگر اس کے خلاف کوئی ایسی کاروائی ہوتی ہے تو تمام لوگوں کی سوچ پر منفی اثرات پڑیں گے۔
پشتون جرگے میں پیش کیے جانے والے اعلامیے پر کسی اور دن بات کریں گے لیکن اگر ہم چیزوں کو باریکی سے دیکھیں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس اعلامیے نے حکومت کو حالات سنبھالنے کا اور علاقے میں امن کا بڑا موقع فراہم کیا ہے جس سے ہر صورت فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ ہم یہ امید بھی رکھیں گے کہ ریاستی سطح پر جرگے کا کوئی ایسا ردعمل نہیں آئے گا جس کی وجہ سے یہ تاریخی موقع ضائع ہو جائے۔
نوٹ یہ تحریر پہلے وی نیوز نامی ویب سائیٹ پر شائع ہوچکی ہے.