انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی،جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر میں قبائلی تنازعات نےسر اٹھالیا

(خان زیب محسود)
انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی کی وجہ سے جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر میں‌مختلف اقوام کے درمیان تنازعات نے سر اٹھا لیا.

گورگورہ کی ملکیت پر وزیر قبیلے کی دو شاخوں زلی خیل اور خوجل کے درمیان جبکہ اپر اور لوئر وزیرستان کے سرحدی علاقے بالا پتھر کی ملکیت پر سپیرکائی وزیر اور نانو خیل محسود کے درمیان تنازعات چلے آرہے ہیں۔

گورگورہ نامی علاقے کی ملکیت پر خوجل خیل اور زلی خیل قیبلےکے درمیان تنازعہ کافی عرصے سے چلا آرہاہے ۔

چند روز قبل17 اکتوبر کو دونوں اقوام نے ایک دفعہ پھر مورچے سنبھال لئے۔اس موقع پر جنوبی وزیرستان لوئر کی سیاسی ،سماجی اور قبائلی مشران کی جانب سے دونوں اقوام کو پر امن رہنے کی اپیل کی گئی ۔

17 اکتوبر کو دونو ں اقوام نے ایک دوسرے کی مورچوں پر چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں سے حملہ کیا ۔ 18اکتوبر کو امن لشکر اور پولیس نے دونوں اقوام کے درمیان شام 6 بجے تک فائربندی کی اور مذاکرات شروع کردیے لیکن ناکام ہوئے اور اسی رات دونوں اقوام نے ایک دفعہ پر ایک دوسرے پر شدید گولہ باری کی ۔

18 تاریخ تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق جھڑپوں میں 1 شخص جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے تھے۔

اس دوران وانہ سیاسی اتحاد اور دیگر سیاسی و سماجی رہنماؤں کی جانب سے باربار انتظامیہ اور عسکری حکام سے دونوں اقوام کے درمیان فائربندی کی اپیلیں کی گئی۔

20تاریخ کو ڈسٹرکٹ پریس کلب وانا میں قومی مشران ، علمائے کرام اور ال سیاسی پارٹیوں نے گورگورہ ملکیتی تنازعہ کے حوالے سےمشترکہ ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ گورگورہ زمینی تنازعہ میں عسکری قیادت اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ حکام ملوث ہیں ۔

اسی روز وانا کی تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے وانابازار میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ منعقد کیا۔ جس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ گورگوہ میں متحارب قبائل میں جاری جھڑپیں رکوانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے میں تاخیر نہ کرے۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسی روز وزیر گرینڈ جرگہ کے اراکین گورگورہ گئے اور دونوں فریقین سے مذکرات کئے،دونوں اقوام نے 21 اکتوبر کی صبح 10 بجے تک فائربندی پر رضامندی ظاہر کردی ۔

21 اکتوبر کو علماکرام ، افغان ریفیوجی کمیٹی اور سیاسی رہنماؤں نے کمانڈنٹ سکاؤٹس فورس اویس شمیم اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کشمیر خان کے ساتھ ایف سی کمپاؤنڈ میں ملاقات کیا۔

کمانڈنٹ اویس شمیم نے جرگہ وفد کو یقین دہانی کرائی کہ وزیر گرینڈ جرگہ کو سکاؤٹس فورس کی جانب سے مکمل تعاون حاصل ہوگا اور یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ مذکورہ قبائل سے فوری طورپر مورچے خالی کرکے پولیس کو وہاں تعینات کیا جائیگا۔

22 اکتوبر کو وزیر گرینڈ جرگے کا صدر جلال وزیر نے مقامی میڈیا سے باتوں میں کہاکہ زلی خیل اور خوجل خیل قبائل کے مابین مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں انھوں کہاکہ دونوں فریقین اپنے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنے کو تیار نہیں لہذا صورت حال انتہائی تشویشناک ہے اور آئیندہ 24 گھنٹوں میں خونریز جھڑپ کا خدشہ ہے ۔

23 اکتوبر کو محسود امن جرگہ پہنچ گیا جنہوں نے پولیس کے ہمراہ گورگورہ کا دورہ کرکے دونوں قبائل کے درمیان فائربندی کردی ۔

آج دونوں اقوام نےمورچے خالی کرائیں جبکہ ایف سی اور پولیس نے مورچے سنبھال لیے۔دونوں اقوام نے 28اکتوبر سے وانا ایف سی کیمپ میں مزاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔

دوسری جانب آج جنوبی وزیرستان لوئر اور اپر کے سرحدی علاقے بالا پتھر میں نانوخیل قوم کے مورچے جن پر پولیس کو بٹھایا گیا تھا پر سپیرکئی وزیرکے مورچوں سے شدید فائرنگ کی گئی۔

صحافی آتش محسود کے مطابق چند گھنٹوں بعد فائرنگ بند کرادی گئی۔

تیارزہ پولیس کے مطابق شکئی پولیس کے تعاون سے قوم سپیرکئی سے مورچے خالی کروانے کے لیے کوششیں جاری ہیں.

یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ قبل وزیر قوم کی ذیلی شاخ سپیرکئی اور محسود قوم کے ذیلی شاخ نانوخیل کے درمیان بالا پھتر پر خون ریز جھڑپ ہوئی تھی۔

دونوں اقوام کے درمیان تنازعہ کو ختم کرنے کےلئے متعدد جرگے کئے گئے لیکن ناکام ہوگئے جس کے بعد انتظامیہ نے دونوں اطراف کے مورچوں کو خالی کرواکر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔