خون آلود خیبرپختونخوا کا مستقبل

راز محمد وزیر
پاکستان کے قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ خیبرپختونخوا کے باسی یا تو عرب ممالک میں کام کر رہے ہیں یا پاکستان کے دیگر صوبوں میں، بے پناہ وسائل کے باوجود اس صوبے کے باسی پانی، اسکولز، ہسپتال، روڈز سمیت زندگی کی دیگر سہولتوں سے محروم رہے ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولیات تو دور کی بات ہے، گزشتہ چالیس سال سے بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین واقعات نے ان کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔

کبھی افغانستان میں صوبہ خیبرپختونخوا کے باسیوں کو جہاد کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے، تو کبھی قومی سیاست میں۔ یعنی ہر بار خیبرپختونخوا کے باسی ہی کیوں استعمال کیے جاتے ہیں؟ بس کریں، مزید خیبرپختونخوا کے باسیوں کو استعمال نہ کریں اور انہیں پرامن اور خوشحال زندگی جینے دیں۔

پہلے ہم سوویت یونین کے خلاف استعمال ہوئے، پھر سوویت یونین کے انخلا کے بعد امریکہ نے افغانستان میں ڈھیرے ڈال دیے اور یوں خیبرپختونخوا کے باسیوں کو پھر سے جہاد کی ترغیب دینا شروع کیا۔

خیبرپختونخوا کے باسیوں کو امریکہ کے خلاف بھی خوب استعمال کیا گیا، جس میں خیبرپختونخوا کے ہزاروں باسیوں کی اموات ہوئیں۔ امریکہ کی یہ جنگ تقریباً بیس سال تک جاری رہی اور بالآخر امریکہ نے افغانستان سے سال دو ہزار اکیس میں فوجیں واپس بلا لیں۔ اس جنگ میں کم و بیش اسی ہزار پاکستانی لوگ جاں بحق ہوئے۔

امریکی انخلا سے قبل خیبرپختونخوا کے باسیوں میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا اور یوں لوگ بندوق کے بجائے غیر مسلح ہو کر پرامن رہنے کو ترجیح دینے لگے۔ یہاں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ خیبرپختونخوا کے باسی اس سے قبل بھی بندوق یا جنگ کے شوقین نہیں تھے، لیکن ہماری بار بار ترغیب اور جہاد کا نام غلط استعمال کر کے لوگ بندوق اٹھانے پر مجبور ہو گئے تھے کیونکہ ان کی ایسی ذہن سازی کی گئی تھی کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔

اب چونکہ امریکہ افغانستان سے چلا گیا ہے اور افغانستان میں امارت اسلامی کی حکومت قائم ہے۔ امریکہ کے جانے سے پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ جس دن امریکہ افغانستان سے چلا گیا أس دن افغانستان اور پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا لیکن یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوا اور آج تک خیبرپختونخوا کے باسی مسلسل ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین واقعات کا روز سامنا کر رہے ہیں۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف، امریکہ کے جانے کے بعد پاکستان میں بیٹھے بڑے بڑے لوگ یہ فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے کہنے پر جعلی جہاد لوگوں سے کروایا۔ چلو سوویت یونین کے خلاف جہاد کو آپ نے جعلی مان لیا اور جو جہاد امریکہ کے خلاف افغانستان میں کیا گیا وہ کس کے کہنے پر کیا گیا اور وہ جہاد جعلی تھا یا اصلی؟

خیبرپختونخوا میں اکثر لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑی گئی جنگ دراصل امریکہ اور چین کے درمیان تھی لیکن بدقسمتی سے استعمال خیبرپختونخوا کے باسی ہوئے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ کیونکہ جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ہر روز فوج کے جوانوں سمیت پولیس اور عوام دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔

جبکہ دوسری جانب اس وقت خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر ہر ضلعے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ امن کے قیام کے لیے نکلتے ہیں اور نکل بھی رہے ہیں۔ امن کے قیام کے لیے ریلیاں، احتجاجی مظاہرے اور دھرنے بھی کام نہیں آ رہے۔ اب مزید خیبرپختونخوا کے باسی کدھر جائیں کیونکہ امن قائم کرنے میں حکومت بھی بے بس نظر آ رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خیبرپختونخوا میں امن کے قیام کے لیے سعی کرنے والے بھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے رہے ہیں، اب عوام بھی مایوس ہو چکی ہے کہ امن کے داعی بھی نہیں بچ رہے اور نہ ہی پولیس اور فوجی جوان محفوظ ہیں تو پھر خیبرپختونخوا کا مستقبل کیا ہوگا؟

زیادہ لمبی بات نہیں کر رہا لیکن اس وقت خیبرپختونخوا کے باسیوں میں شدید تشویش اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور اپنے مستقبل کے لیے حد سے زیادہ فکرمند ہیں کہ خیبرپختونخوا کا مستقبل کیا بنے گا اور کب ہم پرامن زندگی جیئیں گے؟ پریشان اس لیے نہیں کہ خیبرپختونخوا میں بدامنی عروج پر ہے بلکہ اس لیے پریشان ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں ایک بار پھر کسی پرائے جنگ کا حصہ نہ بنا دیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں