جنوبی وزیرستان اپر کی تحصیل تیارزہ میں سیکیورٹی فورسز کی حراست میں ایک شہری کے مبینہ جاں بحق ہونے کےخلا ف پشتون تحفظ مومنٹ(پی ٹی ایم) اور مقامی افراد نےخیسور قلعہ کے سامنےاحتجاجی دھرنا شروع کردیا ہے۔
دھرنے میں شریک جاں بحق ہونے والے گل ولی کے بھائی نے غیرملکی نشریاتی ادارے مشال ریڈیو کو بتایاکہ فوجی سپاہی اس کے بھائی اور دو دیگر افراد کو اپنے ساتھ لے گئےتھے جس میں سے ایک کو رہا کیا گیا ہے ،ایک ان کی حراست میں ہے جبکہ میرے بھائی کو قتل کیا گیا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ 21 مئی کو جب وہ اپنے بھائی کو رہا کرنے گیا تو فوجیوں نے اسے بتایا کہ اس نے خود کو مار لیا ہے۔ “ہم کئی بار اس کے پیچھے گئے لیکن انہوں نے ان کو ہمارے ساتھ جانے نہیں دیا،وہ کہتے تھے آج چھوڑ دیں گے کل چھوڑ دیں گے، کل جب گئے تو وہ کہنے لگے کہ اس نے خود کو مار لیا ہے۔ وہ جیل کے اندر تھا، لاش ابھی تک نہیں دی گئی، ہم سب قوم انصاف کے لیے جمع ہیں۔
دھرنے کے شرکا پولیس کے اس دعوے کو نہیں مانتے کہ گل ولی نے خودکشی کی ہے، وہ اس موت کی تحقیقات اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق گل ولی کی موت کے بعدپوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خودکشی کی۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ایک شخص جیل میں خود کو کیسے مار سکتا ہے؟ پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ گل ولی نے خودکشی کیوں کی۔
جنوبی وزیرستان اپر پولیس کے سربراہ شبیر حسین نے مشال ریڈیو کو بتایا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور مزید معلومات ملنے کے بعد وہ میڈیا کو تفصیلات بتائیں گے۔
دھرنے میں شریک اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما عالم زیب محسود نے مشال ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ فوج علاقے کے مکینوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر رہی ہے۔ “اب قبائلی علاقوں میں پولیس موجود ہے۔ ہم نے ہمیشہ مطالبہ کیا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو پولیس کارروائی کرے،لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ گاؤں کے سبھی لوگ جانتے ہیں کہ گل ولی کس قسم کا شخص تھا، جب سیکیورٹی فورسز نےانھیں گرفتار کیا تو گاؤں کے تمام لوگوں نےان کی منت سماجت کی کہ انہوں نے ایک بہت غریب آدمی کو گرفتار کیا ہے۔
عالم زیب محسود نے مزید کہا کہ دھرنے کے تین مطالبات ہیں،پہلے گل ولی کے ’’قتل‘‘ میں ملوث افراد کے خلاف ’’فوجی عدالت‘‘ میں مقدمہ چلایا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علاقہ مکینوں کو تنگ نہ کیا جائے اور اگر کوئی شک ہو تو پولیس اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ تیسرا یہ کہ حکومت گل ولی کے خاندان کو معاوضہ دے۔
جنوبی وزیرستان اپر کے ڈپٹی کمشنر اشفاق خان نے مشال ریڈیو کو بتایا کہ وہ دھرنے کے عمائدین سے ان کے مطالبات کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جرگہ میں مسائل کا حل قبائلی روایت ہے۔ ہم یہ مسئلہ بھی جرگے میں حل کریں گے۔ ہم نے اسسٹنٹ کمشنر، پولیس سمیت دیگر افسران کو بھیجا ہے اور مجھے امید ہے کہ مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔