گلگت :عسکریت پسندوں نے مذاکرات کے بعد گلگت بلتستان کے سینئر وزیر کرنل ریٹائرڈعبید اللہ بیگ کو رہا کر کے بابو سر کی سڑک کھول دی۔
گذشتہ روز خیبرپختونخوا کو گلگت بلتستان سے ملانے والی سڑک پر عسکریت پسندوں نے رکاوٹیں کھڑی کر کے اسے بلاک کردیا تھا جس کے باعث چلاس کے قریب بابوسر روڈ پر متعدد سیاح اور ایک سینئر وزیر پھنس گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی وائس کلپ میں گلگت بلتستان کے وزیرعبیداللہ بیگ نے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد سے گلگت جارہے تھے کہ متعدد عسکریت پسندوں نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے حکام پر دباو ڈالنے کے لیے سڑک بند کردی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مطلوب عسکریت پسند کمانڈر حبیب الرحمٰن کے ساتھیوں نے دیامر میں چلاس کے قریب تَھک گاؤں میں 4 بجے کے قریب سڑک بلاک کی جس کے باعث کئی سیاح اور مسافر دونوں طرف پھنس کر رہ گئے، عسکریت پسند نانگا پربت میں غیر ملکیوں کے بہیمانہ قتل اور دیامر میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دیگر ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
بعد ازاں سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے سینئر وزیر کا ایک انٹرویو سامنے آیا تھا، ایک آڈیو کلپ میں ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند کمانڈروں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جن کے دو مطالبات ہیں۔
آڈیو کلپ میں مزید کہا گیا تھا کہ عسکریت پسند جیلوں سے اپنے ساتھیوں کی رہائی اور ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے اور خواتین کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مذاکرات کرنے والوں میں شامل فیض اللہ فراق نے میڈیا کوبتایا کہ عسکریت پسندوں نے عبیداللہ بیگ اور ان کے ساتھیوں کو ایک مکان میں 6 گھنٹوں تک تحویل میں رکھا تھا، اور انہیں مذاکرات کے بعد رات کو 3 بجے چھوڑا تھا۔
واضح رہے کہ پولیس نے عسکریت پسند حبیب الرحمٰن کو اس کے دو ساتھیوں سمیت 2013 میں گرفتار کیا تھا تاہم وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گلگت بلتستان کی جیل سے 2015 میں بھاگ گیا تھا لیکن 7 جولائی 2021 کو اس نے دیامر کے ضلع میں ‘کھلی عدالت’ لگائی اور ایک انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا گیا جسے سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا تھا جبکہ اس کا دوسرا ساتھی پنجاب کی جیل میں قید ہے اور فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت کا انتظار کررہا ہے۔