شمائلہ آفریدی
“میں نے خود اپنی زمین پر سوئل موسچر سینسرز لگا کر دیکھا کہ واقعی پانی کی بچت ہوتی ہے اور فصل بہتر ہوتی ہے۔ پہلے ہمیں بار بار پانی لانا پڑتا تھا، اب سینسرز سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کب اور کتنا پانی دینا ہے۔ اس سے میری محنت اور پانی دونوں کی بچت ہوتی ہے۔”
یہ کہنا ہے گل ناز کا جو بذات خود ایک کسان ہیں اور ‘پودا’ نامی ادارے کے ذریعے چکوال کی خواتین کسانوں کو زرعی ٹیکنالوجی سے آگاہی دے رہی ہیں۔
گل ناز کہتی ہیں کہ وہ خود بھی اب خودمختار ہیں اور دوسری خواتین کو بھی اپنی معیشت مضبوط بنانے کے لیے متحرک کر رہی ہیں۔ “خواتین کسان اپنی محنت سے گھروں کا چولہا جلاتی ہیں، اس لیے انہیں جدید معلومات دینا بہت ضروری ہے۔”
چکوال کی زمینیں زیادہ تر بارانی پانی پر انحصار کرتی ہیں، ایسے میں انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ (IWMI) کی جدید ٹیکنالوجی نے ان خواتین کسانوں کی دنیا بدل دی ہے۔ ادارہ، جو بین الاقوامی شراکت داری کے تحت کام کر رہا ہے، پنجاب کے مختلف علاقوں جیسے چکوال، مانسہرہ اور مردان میں جدید سوئل موسچر سینسرز اور ایڈی کوورینر فلکس ٹاورز نصب کر رہا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی نہ صرف مٹی کی نمی کو مسلسل مانیٹر کرتی ہے بلکہ کسانوں کو یہ بھی بتاتی ہے کہ فصل کو کب اور کتنی مقدار میں پانی دینا ہے۔
نقاش تاج، IWMI کے ریسرچ آفیسر، بتاتے ہیں کہ”یہ سینسرز ہر 15 منٹ بعد ڈیٹا ریکارڈ کرتے ہیں اور کسانوں کو سرخ، سبز اور نیلی روشنی کے ذریعے پانی کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس نظام سے پانی کی بچت ہوتی ہے اور پیداوار میں 20 سے 28 فیصد اضافہ ممکن ہے۔”
مرجان عزیز، بارانی ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ چکوال کی پرنسپل کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات کے پیش نظر خواتین کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کی تربیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم انہیں صحیح معلومات اور سہولتیں فراہم کریں تو وہ نہ صرف اپنی فصل بہتر کر سکتی ہیں بلکہ موسمیاتی چیلنجز کا بھی بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتی ہیں۔”
گل ناز جیسے کسان جدید ٹیکنالوجی کی بدولت نہ صرف اپنی زمینوں پر بہترین پیداوار حاصل کر رہی ہیں، بلکہ وہ دیگر خواتین کو بھی کچن گارڈننگ، ویلیو ایڈیشن، اور ماحولیاتی لحاظ سے مؤثر زراعت کی تربیت دے رہی ہیں۔
یہ سینسرز ان کسانوں کے لیے ایک قیمتی مددگار بن چکے ہیں۔ مٹی کی نمی کی درست معلومات دے کر یہ غیر ضروری پانی کے استعمال کو روک دیتے ہیں۔
اب کسان آسانی سے رنگین لائٹس دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انہیں پانی کب دینا ہے۔ اس سادہ لیکن مؤثر نظام سے ان کی محنت کم، خرچ کم، اور پیداوار زیادہ ہو گئی ہے۔
گل ناز اور IWMI کی مشترکہ کاوش نے چکوال کی خواتین کسانوں کو نہ صرف خودمختاری دی ہے بلکہ انہیں یہ شعور بھی دیا ہے کہ پانی کی بچت صرف آج کی فصل کا سوال نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کی ضمانت ہے۔
ادارے کے مطابق، وہ اس ٹیکنالوجی کو پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی لے جانے کے لیے حکومتی اداروں سے تعاون کر رہے ہیں۔
یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اگر خواتین کسانوں کو مسلسل تربیت، ٹیکنالوجی، اور حکومتی سرپرستی ملتی رہی تو نہ صرف وہ خود کفیل ہوں گی بلکہ پاکستان کی زرعی معیشت کو بھی ایک نئی سمت ملے گی۔