شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کو افغانستان میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کے لیے غلام خان روڈ پر سفر کرنے میں مشکلات درپیش ہیں.
دتہ خیل کے ایک رہائشی ملک مسادی خان نے نشریاتی ادارے مشال ریڈیو کو بتایا کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے یہاں رہتے تھے اور افغانستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور اپنی جائیدادیں دیکھنے کے لیے آسانی سے سفر کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہاکہ خاردار تاریں لگنے کے بعد اب انہیں سفر کرنے کے لیے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ ایک بھائی یہاں رہتا ہے اور دوسرا بھائی وہیں رہتا ہے اور اب آنا جانا مشکل ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اجازت نامے اور سفر کے دوران لوگوں کی تلاشی کے لیے ایجنٹ مقرر کیے ہیں اور ان کے مطابق وہ ان سے پیسے لیتے ہیں۔ان کی درخواست ہے کہ حکومت خود یہ کام کرے۔
شاہین نامی ایک اور شخص، جو خوست میں 8 سال گزارنےکے بعد شمالی وزیرستان واپس آیا ہے کا کہنا ہے کہ دونوں طرف رشتہ دار رہتے ہیں، لیکن خاردار تاریں اس کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہر روز اجازت نامہ لینے کےلئے متعلقہ لوگوں کو تلاش کرتے ہیں انھیں افغانستان جانے کے لیے کچھ دن انتظار کرنا پڑتا ہے.
شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر ریحان گل خٹک نے بتایا کہ وہ اور فوج کے میجر جنرل محمد نعیم اختر روزانہ ان معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں اور متعلقہ حکام کو لوگوں کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
انہوں نےکہا کہ حکومت نے مہاجرین کی تصدیق اور رجسٹریشن کے لیے قبائلی مشران مقرر کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو پیسے لینے کی اجازت نہیں اور اس الزام میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی نقل و حرکت میں سہولت کے لیے دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شمالی وزیرستان میں 2014 میں ضرب عضب آپریشن کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے جن میں سے بہت سے افغانستان بھی نقل مکانی کر گئے تھے۔