خیبرپختونخوا میں گذشتہ چار سال میں بچوں پر جنسی تشدد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے ،اب تک مجموعی طور پر 1233 کیسز رجسٹر ہوئے۔
خیبرپختونخوا پولیس نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی چار سالہ رپورٹ مرتب کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں 185 کیسزرپورٹ ہوئے اور 2020 میں 323 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح سال 2021 میں 360 اور 2022 میں جنسی واقعات کی کل تعداد 365 ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال رواں سال میں اب تک 43 بچوں پر جنسی تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
اعدادو شمار کے مطابق 2019 میں سب سے زیادہ پشاور میں 42 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح ضلع نوشہرہ میں 27 کیسز،مردان42،کوہاٹ12،مانسہرہ 17،لکی مروت 8، چارسدہ میں 4 کیسز رونما ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 2020 میں مردان میں سب سے زیادہ 51 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔ اسی طرح ہری پور اور مانسہرہ میں 24،24، پشاور 30، نوشہرہ21، صوابی 14، کوہاٹ11، ڈی آئی خان 48، سوات 18، دیر لوئر 12 اور ایبٹ آباد میں 16 کیسز رپورٹ ہوئے۔
2021 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں 45،پشاور 44، مردان 58،مانسہرہ 33،ہری پور28، سوات 33،صوابی 19، کوہاٹ 10،اور بنوں میں 11 جنسی تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
بچوں کیساتھ جنسی تشدد کے کیسز 2022 میں 365 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے بچوں کو جنسی زیادتی سے بچانے کے لئے سخت قوانین اسمبلی سے پاس کیے مگر اس کے باوجود سزا اور جزا دینے کے لئے عملی اقدامات واضح طور پر نظر نہیں آئے۔
چائلڈ پروٹیکشن قانون کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہونے پرعمرقید، سزائے موت اور دیگر سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ بدفعلی میں ملوث عناصر کی تصاویر سرکاری اداروں اور سوشل میڈیا پر شائع کرنے سمیت ہر طرح کے ملازمت سے برخاست کرنے کی سزا بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت نے بچوں کے تحفظ سے متعلق قانون میں نئے ترامیم کرکے سال 2019 میں صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا۔
خیبرپختونخوا میں زیادہ تربچوں کے ساتھ جنسی تشدد واقعات ہوتے ہیں لیکن لوگ اس کو عزت کی وجہ سے پولیس میں رپورٹ نہیں کرتے
جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت نے قانون منظور کرنے کے ساتھ ساتھ ہیلپ لائن بھی متعارف کروائی تھی لیکن عوام میں اس کی صحیح تشہیر نہ کرنے سے اس کا بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں مل رہا۔