لکی مروت کے بعد بنوں اور باجوڑ میں بھی پولیس نےاحتجاج شروع کردیا ہے

خیبرپختونخوا کے تین اضلاع لکی مروت، بنوں اور باجوڑ میں پولیس نے مطالبات تسلیم کرانے کے لیےاحتجاجی دھرنے شروع کردیئے ہیں.

لکی مروت پولیس نے9 ستمبر سے احتجاج شروع کیا تھا تاہم بنوں اور باجوڑ پولیس نےآج 12 ستمبر سے احتجاج شروع کیا ہے۔

لکی مروت پولیس کھلے عام فوج کا نام لے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ فوج ان کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور جب تک فوج ایسا کرنا بند نہیں کرتی وہ اپنی سرگرمیاں ختم نہیں کریں گے۔ انہوں نے احتجاج کے طور پر 9 ستمبر سے کراچی جانے والی انڈس ہائی وے کو بلاک کر رکھا ہے۔

دوسری جانب ضلع بنوں کی تحصیل ڈومیل میں‌ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں ایک پولیس اہلکار جاں‌بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد بنوں پولیس نے اپنا احتجاج شروع کردیا ہے .

ضلع باجوڑ کی تحصیل سلارزئی کے علاقے ملاسید میں گذشتہ روز نامعلوم افراد نے پولیوٹیم پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک پولیو ورکر جان سے گئے تھے .

بنوں پولیس کا کہنا ہے کہ ڈومیل میں قتل ہونے والے پولیس اہلکار کی لاش کو قاتلوں کی گرفتاری تک دفن نہیں کیا جائے گا۔ ابھی تک کسی نے اس پولیس اہلکار کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

باجوڑ میں پولیس اہلکاروں‌نے آج ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) کے دفتر کے سامنے احتجاج شروع کیا ہے .

باجوڑ پولیس نےغیرملکی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ وہ شہر میں ضلعی پولیس کے دفتر کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں اور حکومت سے چاہتے ہیں کہ ملاسید کے علاقے میں قتل ہونے والے پولیس اہلکار کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔

11 ستمبر کو پیش آنے والے واقعے کے بعد باجوڑ پولیس کا کہنا تھاکہ وہ بطور احتجاج پولیو‌ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکیں‌گے تاہم باجوڑ پولیس کے ترجمان محمد اسرار نے بتایا کہ پولیس نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور وہ اپنی زمہ داریاں جاری رکھیں‌گے.

باجوڑ میں پولیو ٹیم پر حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم خیبرپختونخوا میں ہونے والے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اسلامک اسٹیٹ(داعش) خراسان قبول کرتے ہیں.

پاکستان کی حکومت اور فوج کا کہنا ہے کہ وہ سیکیورٹی کے لیے پرعزم ہیں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔

پاک فوج کے تعلقات عامہ (اے ایس پی آر) کے سربراہ جنرل احمد شریف چوہدری نے 5 ستمبر کو راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 2024 کے آغاز سے اب تک انہوں نے انسداد دہشت گردی کے مجموعی طور پر 32,173 آپریشن کیے ہیں جس میں جھڑپوں کے دوران 193 افسران اور سپاہی مارے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک ماہ میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف کل “4,021 آپریشنز” کیے ہیں جن میں 90 مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر روزانہ اوسطاً 130 آپریشن کر رہے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں