شہریار محسود
خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر جہاں سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں وہیں جنوبی وزیرستان میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں کو ضم کرنے پر سابق ارکان پارلیمنٹ شدید تنقید کر رہے ہیں۔
جنوبی وزیرستان دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق دونوں اضلاع کی مجموعی آبادی چھ لاکھ 75 ہزار تھی۔
پرانی حلقہ بندی میں جنوبی وزیرستان میں قومی اسمبلی کے دو حلقے بنائے گئے تھے جن میں سے ایک حلقہ این اے 49 (ضلع جنوبی وزیرستان اپر) محسود علاقے پر مشتمل تھا جبکہ دوسرا حلقہ این اے 50 (جنوبی وزیرستان لوئر) وزیر، سلیمان خیل اور دوتانی قبائل کے علاقوں پر مشتمل تھا۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق جنوبی وزیرستان (اپر اور لوئر)کی کل آبادی آٹھ لاکھ 88 ہزار 675 افراد تک پہنچ چکی ہے۔
نئی حلقہ بندی میں دونوں اضلاع کے حلقوں (این اے 49 اور این اے 50) کو ملا کر ایک ہی حلقہ این اے 42 بنا دیا گیا ہے۔
جب جنوبی وزیرستان ایک ضلع تھا اس وقت بھی اس ضلعے کی دو صوبائی نشستیں تھیں۔ ان میں پی کے 113 محسود ایریا پر مشتمل تھا جو نئی حلقہ بندی میں پی کے 109 جنوبی وزیرستان اپر ہو گیا ہے۔
دوسرا حلقہ پی کے 114 وزیر اور دوتانی علاقے پر مشتمل تھا۔ یہ حلقہ اب پی کے 110 جنوبی وزیرستان لوئر ہو گیا ہے۔
جنوبی وزیرستان لوئر سے سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان کی آبادی دراصل ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقوں سے زیادہ ہے مگر لوگ نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں آباد ہو گئے ہیں۔ وہ بدامنی اور معاشی مواقع کی کمی کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں واپس آنے سے کترا رہے ہیں۔
“دہائیوں سے جنگ زدہ جنوبی وزیرستان کو خصوصی رعایتیں ملنی چاہئیں تھیں۔ اس کی بجائے ہماری نمائندگی کم کر دی گئی ہے اور دو حلقوں کا ایک ہی حلقہ بنا کر ہماری ترقی کی راہیں محدود کر دی گئی ہیں۔”
علی وزیر کہتے کہ دو اضلاع پر مشتمل جنوبی وزیرستان کے حلقے میں الیکشن لڑنا بالکل ایسے ہوگا جیسے کوئی ایک وقت میں پانچ حلقوں سے لڑ رہا ہو کیونکہ یہ حلقہ ضلع ٹانک سے شروع ہو کر ایک طرف بلوچستان بارڈر پر ختم ہوتا ہے اور دوسری طرف افغان سرحد سے شروع ہو کر شمالی وزیرستان اور بنوں سے جا ملتا ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کیا امیدوار کا اس قدر وسیع علاقے میں لوگوں کے پاس پہنچنا ممکن ہو گا؟
جنوبی وزیرستان سے تحریک انصاف کے سینیٹر دوست محمد محسود کا کہنا ہے کہ قبائل، انضمام سے پہلے حاصل مراعات سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں جنوبی وزیرستان کے لوگوں سے قومی اسمبلی کی سیٹ چھن جانے کو کیسے تسلیم کریں گے؟
“جنوبی وزیرستان کی نئی حلقہ بندی سے محسود اور وزیر قبائل میں تنازعات برقرار رکھنے کا بندوبست کر دیا گیا ہے”۔
انہیں خدشہ ہے کہ قومی اسمبلی کی نشست ایک ہونے سے دونوں جگہوں میں لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو قبائلی معاملات کے ساتھ جوڑیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی مولانا جمال الدین بتاتے ہیں کہ ان کی جماعت ابتدا ہی سے فاٹا انضمام کے حق میں نہیں تھی۔ اسی وجہ سے چھ قومی نشستیں کم ہو گئی ہیں اور سینیٹ کی آٹھ نشستیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ آئندہ فاٹا سے شاید کوئی بھی سینیٹر نہیں بن پائے گا۔
انہیں خدشہ ہے کہ اب یہاں سے وزیر امیدوار جیتے، محسود یا دوتانی، ان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ قبائل میں پہلے ہی اختلافات موجود ہیں۔
“اگر ترقیاتی فنڈز ایک علاقے کو ملیں گے تو باقی اپنے نمائندے کو شک کی نظر سے دیکھیں گے اور اس بات کو قبائلیت کا رنگ دیا جائے گا”۔
الیکشن کمیشن کے ضلعی افسر محمد بلال بتاتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان میں شاید سب سے پیچیدہ علاقہ ہے۔ پرانی حلقہ بندی میں تیارزہ کے محسودوں کو جنوبی وزیرستان لوئر میں شامل کیا گیا تھا لیکن نئی مردم شماری کے بعد تیارزہ کو واپس محسود حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔
چیئرمین نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ اور سابق ممبر قومی اسمبلی شمالی وزیرستان محسن داوڑ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ضم شدہ علاقوں میں صوبائی الیکشن سے پہلے ہی قومی اسمبلی میں بل جمع کرایا تھا جس میں ضم شدہ اضلاع کے لیے صوبائی اسمبلی کی 24 جنرل نشستیں اور قومی اسمبلی کی 12 سیٹیں رکھی گئی تھیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی سات مخصوص نشستیں ان کے علاوہ تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایوان زیریں نے بھاری اکثریت سے اس بل کی منظوری دے دی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس دوران خڑ کمر کا واقعہ ہوا جس میں علی وزیر اور وہ گرفتار ہو گئے، پھر انہیں رہائی تب ملی جب صوبائی الیکشن ہو چکے تھے۔ اب جنوبی وزیرستان کے دو اضلاع کا ایک حلقہ بنانا عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔
نوٹ یہ تحقیقاتی رپورٹ لوک سجاک پر 3 نومبر کو شائع ہوا تھا۔