قومی اسمبلی اجلاس: عدالتی اصلاحات بل بھاری اکثریت سے منظور

قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا ، حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چنداراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قائمہ کمیٹی کو سونپا گیا تھا، کمیٹی نے بل میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں۔

وزیر قانون نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جبکہ کمیٹی کی رپورٹ چئیرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے پیش کی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا جس کے بعد بل پر بحث آغاز ہوا۔

جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی اس ایوان کا حق ہے، قانون سازی سے کوئی عدالت یا ادارہ روک نہیں سکتا لیکن یہ بل کل رات کو پیش کیا گیا پھر کمیٹی میں گیا اور صبح ساڑھے 9 بجے کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے اس کی منظوری دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کو ڈیڑھ بجے قومی اسمبلی سے منظور کروایا جارہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی کی ضرورت کیا تھی، کیا اس پر مزید لوگوں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جاتی، اٹارنی جنرل، سابق چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی تو بہتر نتیجہ نکل آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی شدید مسائل اس وقت موجود ہیں، لوگ مفت آٹا حاصل کرنے کے لیے شہید ہو رہے ہیں، ملک میں صورت حال یہ ہے کہ اس وقت رمضان المبارک میں افطاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں مل رہا ہے۔

عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سیلاب زدہ لوگوں کو اب تک مناسب ریلیف نہیں ملا، کم از کم خیبرپختونخوا میں میرے علاقے میں لوگوں کو ریلیف صحیح طرح نہیں ملا لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو پاکستان کے اہم مسائل پر بھی گفتگو کرنے کے لیے ہمیں ہدایات دینی چاہیے تھا لیکن ایک مسئلے پر اور جن لوگوں سے آپ نے مشاورت کی ہے، ان کے لیے دوسرا بل لے کر آئے ہیں اور لوگ کہتےہیں رشوت کے طور پر ان کو دیا گیا ہے، یہ دوسرا بل وکلا کو رشوت کے طور پر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں یہ باتیں سنی ہیں، ہمیں اپنے اداروں کو مستحکم کرنا چاہیے، اداروں کا استحکام ہم سب کے لیے بہتر ہے، سپریم کورٹ یا عدلیہ اپنا قانون تقاضے کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتا، یہ حقیقت ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔

عدلیہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مراعات اور تنخواہوں کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا نمبر پانچواں ہے اور کارکردگی کے لحاظ سے 128 نمبر پر ہے، اس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔

جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم چیف جسٹس کو مقید کریں گے لیکن کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب آرہے ہیں، اس کا کیا کریں گے، اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اسمبلی احمد حسین دیہڑ نے بل پر ایوان، وزیراعظم، اسپیکر اور وزیرقانون کو مبارک باد دی اور کہا اس سے عوام کو حق ملے گا اور یہ وکلا کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اس سے انصاف ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات عدلیہ کو دیے گئے ہیں، عدلیہ سے لے کر کسی اور کو نہیں دیے گئے، اس میں بینچ اور وکلا کی عزت ہے، سینئر تین جج بیٹھ کر از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل پر فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں انصاف کے قریب نتائج ملیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کہتے ہیں قانون غلط نہیں ہونا چاہیے، قانون پر عمل ہونا چاہیے، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس قانون کوبنانے والا ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے سزائے موت دی، آج یہ جواب دیں، یہ قانون کی تشریح کیسے کریں گے، تین دفعہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو سزا دے کر ملک سے باہر بھیجا تو یہ کیا انصاف دیں گے۔

رکن اسمبلی صالح محمد نے کہا کہ بل پر پہلے بحث ہوتی تاکہ ترامیم کا موقع مل جاتا، حیران ہوں کہ تراویح کے دوران یہاں اجلاس چل رہا تھا پتا نہیں سحری کے وقت کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اور وزیرقانون ایک دم بل پیش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی اصلاحات کے حق میں ہیں، ہم کہتے ہیں عدلیہ میں اصلاحات ہوں لیکن عدلیہ پر ڈاکا ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں، بل کے مناسب وقت دینا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو قانون سازی ہو رہی ہے یہ عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، یہ اصلاحات ذاتی بنیاد پر ہیں۔

قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کہا کہ میں ایوان اور وزیرقانون کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ہم سمجھتےہیں کہ یہ بل قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور اس سے ون مین شو ختم ہوگا اور تین سینئر جج بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ طور پر یہ بل لایا، جو پورے ملک کے وکلا کی ترجمانی کر رہا ہے، جو صحیح بات ہے وہ ایک گھنٹے اور ایک منٹ میں منظور کرلی جائے تو بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے اور اس سے عدلیہ بھی مضبوط ہوگی اور غریب کو انصاف ملے گا اور عدلیہ کے ون مین شو پر نظر ثانی ہوگی۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت بہت مسائل کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان میں ہم نے کئی بحران دیکھے اور اس سے نکل آئے، جمہوری اور آئینی بحران دیکھا، آمریت دیکھی مگر ان آمروں کا مقابلہ کرکے جمہوریت قائم کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام ایک ساتھ تاریخی معاشی بحران، مہنگائی، تاریخی بے روزگاری اور غربت کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے اور کچھ اس لیے ایک ایسا نااہل اور نالائق وزیراعظم کو ہم پر مسلط کیا گیا تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے معیشت کا گلہ گھونٹا اور پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی پنجاب میں راجن پور، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کے عوام اس تاریخی قدرتی آفت کی وجہ سے پیدا مسائل کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری معیشت کے مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا کردیا گیا ہے، دہشت گردوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، اسی نالائق وزیراعظم نے پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیا تو اسی وقت غیرجمہوری قوتوں نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کیا تھا، ہائبرڈ جنگ جمہوریت، سیاسی اتفاق رائے، میثاق جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے خلاف خلاف تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ہر طرف سے ہو رہا تھا، میڈیا کے ذریعے تھا، ہر سیاسی رہنما کی کردار کشی کی گئی، ہمارے سامنے جو بحران پیدا ہوا ہے، اس کا ماضی ہے، 1996 میں جس طریقے سے جنرل (ر) حمید گل اس سلیکٹڈ کو انگلی پکڑ کر سیاست میں لے کر آئے وہ کیوں لے کر آئے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جو کردار جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید کا تھا وہ آپ کے سامنے ہیں، عوام کے سامنے ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ بھی سیاسی اتفاق رائے کے خلاف، 18 ویں ترمیم کے خلاف، جمہوریت کے خلاف ایک گٹھ جوڑ تھا، جو اس ہائبرڈ جنگ میں شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ اتحادی بھول جاتے ہیں کہ ایک اور چیف جسٹس بھی اس میں شامل تھا، جسٹس افتخار چوہدری نے اس روایت کی بنیاد ڈالی، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی آمریت افتخار چوہدری نے قائم کی اور وہ بھی اس ہائبرڈ جنگ میں شامل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاشا آیا، ظہیر آیا سب چلے گئے لیکن عمران خان نیازی بدستور موجود ہے، اس کرکٹر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لے کر آئی اور 30 پاکستان کے ادارے اس جرم میں شامل تھے کہ وہ ایک فریکنسٹائن بنا رہے تھے، یہ ہر وقت ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں میں کچھ آئنسٹائن بیٹھتے ہیں اور اس ملک کے فیصلے کرتےہیں، اسٹریٹجک اثاثے بناتے ہیں اور پھر آخر میں یہ ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں۔

بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پیش کیا اور ایوان نے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا جبکہ سپریم کورٹ (کارروائی، قواعد و ضوابط) بل بھی منظور کر لیا گیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے وکلا کی بہبود اور سیکیورٹی کے حوالے سے ’لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل‘ پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔