نقیب قتل کیس کا فیصلہ،راؤ انوار سمیت تمام ملزمان بری،محسن داوڑ اور فواد چوہدری کی فیصلے پر تنقید

پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریک کا سبب بننے والے نقیب قتل کیس میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کردیا۔

عدالت کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پروسکیوشن راؤ انوار اور دیگر ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کی سماعت مکمل ہونے میں 5 برس لگے، یہ التوا سوشل میڈیا پر کراچی میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے بحث اور خاص طور پر اس کیس سے جڑے سابق ایس ایس پی ملیرراؤ انوار پر تنقید کا سبب بنا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے 51 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کیں جن میں میڈیکو لیگل، فرانزک اور بیلسٹکس کے ماہرین، 9 خفیہ گواہ اور پولیس اہلکار شامل تھے۔

کراچی میں کمرہ عدالت سے باہر میڈیا ست گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نے کہا کہ ایک جھوٹا کیس بناکر ملک اور کراچی شہر کا نقصان کیا گیا مگر آج ہم بری ہوگئے اور کسی کو بھی اس میں سزا نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ پولیس سروس میں میرا ایک سال ابھی بھی ہے، میں چاہوں گا کہ مجھے موقع دیا جائے تاکہ میں کراچی شہر کی بھرپور خدمت کر سکوں۔

دوسری جانب نقیب اللہ کے وکیل صلاح الدین پہنور کا کہنا ہے کہ نقیب اللّٰہ قتل کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ چیلنج کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کیس میں پولیس نے کوئی تعاون نہیں کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ جو پولیس اہلکار اپنے بیانات سے منحرف ہوئے ان کے خلاف بھی محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی گئی۔

عدالتی فیصلے پر اپنا درعمل دیتے ہوئے شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی اور نیشنل ڈیموکرٹیک موومنٹ کے چیئرمین محسن داوڑ نے کہا کہ نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث راؤ انوار اور دیگر کی بری ہونا شرمناک ہے۔ ریاستی سرپرستی میں قاتلوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم پشتونوں کو انصاف نہیں ملا۔ نقیب کے مقدمے کی کارروائی اور فیصلہ انصاف کا دھندہ ہے۔

وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے عدالتی فیصلے پر اپنا درعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایک اور قتل ناحق انصاف کے نظام کی نظر ہوا، نقیب الرحمنٰ کے قاتل بھی عدالتی نظام کو عطا تارڑ کا نشان دکھاتے ہوئے روانہ ہوئے ، ظلم کی انتہا ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ ملک اہل ہوص کے ہاتھوں میں ہےراؤ انوار کی بریت ایک ایسا طمانچہ ہے جس کا نشان ایک عرصہ عدالتوں کے رخسار پر رہے گا۔

22 جنوری کو نقیب اللہ محسود کے لواحقین نے سول سوسائٹی کے نمائندگان کے ہمراہ کراچی پریس کلب کے باہر جمع ہوئے اور سابق ایس ایس پی راؤ انواراور ان کے ٹیم کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کیا۔

نقیب اللہ کے بھائی شیر عالم، سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر اور پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی سیف الرحمٰن و دیگر نے اس احتجاج میں شرکت کی، جس میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم سے جعلی مقابلوں کا انتقام لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

جبران ناصر نے کہا کہ ’ہم نے 2 برس پہلے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا اور اب بھی ہم اسی کو دہرا رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس خدشے کا اظہار تب سے کر رہے ہیں جب سے گواہان (جو پولیس اہلکار تھے) نے راؤ انوار انوار اور ان کی ٹیم کے خلاف اپنے اصل بیانات سے منحرف ہونا شروع کردیا تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ محسود ان 4 مشتبہ افراد میں شامل تھا، جنہیں جنوری 2018 میں کراچی میں سابق انکاو¿نٹر اسپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انواراور ان کی ٹیم کی جانب سے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ’جعلی مقابلے‘ میں مار دیا گیا تھا۔

4 برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بالآخر گزشتہ برس 5 نومبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نےراؤ انوار کا بیان ریکارڈ کیا جو کہ فیصلہ سنانے سے قبل کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت مطلوب تھے۔

راؤ انوارنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ واقعے کے وقت جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور نہ ہی 4 سے 6 جنوری 2018 کے درمیان کبھی وہاں (نئی سبزی منڈی) گئے۔انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے اس معاملے میں ایک سینئر پولیس افسر کے کہنے پر جیو فینسنگ کی بنیاد پر پھنسایا گیا جس سے میری محکمہ جاتی چپقلش ہے‘۔

تاہم دسمبر 2021 میں کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے عدالت کو بتایا تھا کہ راؤ انوار کے کال ڈیٹا ریکارڈ اور سیل فون کی جیو فینسنگ کے مطابق وہ 13 جنوری 2018 کو رات 2:41 سے صبح 5:18 بجے کے درمیان جائے وقوع پر موجود تھے۔