صوبہ خیبر پختونخوا کےضلع کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار میں گذشتہ 22 دنوں سے مرکزی شاہراہ کی بندش اور بدامنی کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
اہل تشیع کی نمائندہ تنظیم انجمن حسینیہ پاڑہ چنار کےایک اجلاس میں گذشتہ روز مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔ منتظمین کے مطابق مارچ تب تک جاری رہے گا جب تک مسئلے کا مستقل حل نہیں نکل آتا۔
مارچ کے دوران کسی تشدد کے خدشے کے پیش نظر علاقے میں سکیورٹی بڑھائی گئی ہے۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کے مطابق مارچ اور کرم کے معاملے پر جرگہ جاری ہے اور ’ہم کوشش کریں گے کہ اس کا کچھ حل نکالا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا، ‘جو ممکن ہے، وہ ہم کریں گے تاکہ سکیورٹی کسی کی بھی کمپرومائز نہ ہو۔’
مارچ میں عوام کی بڑی تعداد شامل ہے اور علاقے میں تمام بازار اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔
تنظیم کے جنرل سیکریٹری جلال حسین بنگش نے گذشتہ روز مارچ کے اعلان کے دوران خطاب میں کہا ’گذشتہ دن تک ہم مفاہمت سے کام لے رہے تھے لیکن اب ہم مختلف سوچ سے آئیں گے اور اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔‘
ان کے مطابق یہ مارچ پیدل اور غیر مسلح ہو گا اور جہاں پر انہیں اس مسئلے کے حل کے حوالے سے تسلی بخش جواب دیا جائے گا وہاں وہ پرامن طریقے سے منتشر ہو جائیں گے، لیکن جب تک حل نہیں ہوتا تو اسی روڈ پر مارچ جاری رہے گا۔
انہوں نے اپنے مطالبے کے حوالے سے بتایا کہ ٹل پاڑہ چنار روڈ کو تمام لوگوں کے لیے محفوظ بنا کر کھول دیا جائے۔
ان کے مطابق مارچ کے دوران روڈ ہر قسم ٹریفک کے لیے بند رہے گا، لہٰذا سرکاری ادارے روڈ کو استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ ان کی پالیسی اب دوٹوک اور موقف سخت ہے۔
ضلعی اتنظامیہ کے مطابق ضلع کرم گذشتہ چند ماہ سے زمینی تنازعات کی لپیٹ میں ہے اور یہ تنازعات فرقہ ورانہ شکل اختیار کرتے ہیں جس سے بات کئی دنوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جھڑپوں تک پہنچ جاتی ہے۔
جھڑپوں میں فریقین کے متعدد افراد مارے جا چکے ہیں اور زمینی راستے اور سڑکیں بند کی جاتی ہیں۔
حالیہ تنازع اور اس کے بعد پاڑہ چنار کو جانے والی مرکزی شاہراہ بند تب ہوئی جب ضلع کرم کے علاقے مقبل کا ایک مقامی شخص اپنے خاندان سمیت گاڑی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا جس میں خواتین سمیت بچے بھی مارے گئے۔
اس واقعے میں پولیس کے مطابق 14 افراد جان سے گئے تھے جن میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔