کرم، جرگہ کی کوششوں سے پاک افغان سرحد پر جھڑپیں رک گئی

َخیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی اور افغان افواج‌ کے درمیان پانچ روز جاری سے لڑائی رک گئی ہے اور تعمیرات پر شروع ہونے والے تنازعے کے حل کیلئے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں.

ان مذاکرات میں خرلاچی کے مقامی رہنما ملک سید مبین حسین نے بھی شرکت کی۔انہوں‌نےامریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ افغانستان سے مختلف قبائل کے رہنما آئے ہیں اور جنگ بندی ہو چکی ہے۔

افغان سرحدی افواج اور پاکستانی افواج کے درمیان 13 مئی کو ہونے والی جھڑپوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں فریقین کے رہنماؤں نے جرگہ منعقد کیا ہے اگرچہ اس میں حکومتی نمائندے شامل نہیں تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں دنوں اطراف سے حمایت حاصل ہے۔

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع اور مقامی رہنماؤں کے مطابق، دونوں فریقین کے درمیان پہلی جھڑپ 13 مئی کو ضلع کرم کے جبہ سر کے مقام پر ہوئی تھی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 4 جوان زخمی ہوئے تھے۔

مقامی عمائدین نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر خاردار تاروں کی تعمیر نو کے علاوہ کچھ اور تعمیراتی کام جاری تھے جب افغان سرحدی افواج نےان پر حملہ کیا۔ جس کے بعد پکتیا کے ڈنڈ پتن اور ضلع کرم کے خرلاچی کے درمیان سرحدی گیٹ بند کر دیا گیا اور تاحال نہیں کھولا گیا۔

افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان دوسری جھڑپ 15 مئی کو ہوئی۔پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اس جھڑپ میں ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار جاں بحق اور ایک شہری اور ایک پولیس اہلکار سمیت 6 فوجی زخمی ہوئے۔

طالبان حکومت کے مطابق 15 مئی کو ہونے والی جھڑپوں میں اس کے چھ فوجی زخمی ہوئے۔’

مقامی رہنماؤں نے بتایا کہ جنگ کے خوف سے بعض علاقوں میں نقل مکانی کرنے لگے تھے۔

جنگ شروع ہونے کے بعد پکتیا اور خرلاچی کے درمیان سڑک کو ہر قسم کی تجارت کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور سامان سے بھری گاڑیاں سرحد کے دونوں اطراف لائنوں میں‌کھڑی ہیں۔

اس سے قبل بھی 18 مارچ کو پکتیا اور ضلع کرم کے درمیان خرلاچی اور بورکی کے علاقوں میں افغان اور پاکستانی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں اور سڑک کو 23 مارچ تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔

ضٌلع کرم کا خرلاچی روڈ ہر روز صبح نو سے شام پانچ بجے تک کھلی رہتی ہے اور تجارتی سامان سے لدی تقریباً 150 گاڑیاں اس سے گزرتی ہیں۔

2017 میں پاکستانی حکومت نے ڈیورنڈ لائن پر خاردار تاریں لگانے کا کام شروع کیا۔ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔