#چارلس_ڈیگال بننا مشکل ہے کیا؟؟؟؟

علی فیاض
چارلس ڈیگال جب جنگ سے تباہ حال فرانس کے صدر بنے تو اس کے سامنے سب سے بڑا مسلہ پورے ملک کے بےترتیب اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو بحال کرنا تھا۔ ملکی معئشیت صفر پر آچکی تھی جس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا تھا۔اگر چہ اس کام کےلئے امریکہ کے #مارشل_پلان سکیم سے بھی امداد ملی، لیکن خود چارلس ڈیگال نے #مراکش کے شہر #طنجہ میں اپنے کاروبار اور جائیداد کو کم قیمت پر بیچ کر اس رقم کو اپنے ملک فرانس لے آیا اور یہاں انویسٹ کردیا۔

یہ جائیداد اسکو فوج کی نوکری میں بطور اعزاز ملی تھی اور وہاں کا کاروبار اس نے اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے شروع کیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب ملک مراکش اور اسکے اطراف فرانس کی نوآبادیاتی علاقے کی حیثیت رکھتے تھے۔

چارلس ڈیگال حکومت کرنے کے بعد #پیرس سے دور ایک غیرمعروف اپنے آبائی گھر میں شفٹ ہوگیا اور ایک عام سی شہری کی زندگی گزار دی۔ لیکن فرانس کی تاریخ میں اسکی خدمات کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ چارلس ڈیگال ہی تھا جس نے فرانس کے تباہ حال انتظامی، معاشی، معاشرتی، اقتصادی اور سیکورٹی ڈھانچے کو از سر نو کھڑا کیا۔

اب اپنے دیس کو لے لیجئے۔ کون سا ہمارا حکمران ایسا گزرا ہے جس نے اپنی پانچ ہزار کی نقدی باہر ملک سے لاکر یہاں اس نیت سے انویسٹ کردی ہو کہ اس سے میرے ملک میرے قوم کو فائدہ پہنچے گا۔

75 سال بعد بھی اس ملک سے اندھیرے ختم نہ ہوسکے، کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں ہم اپنے پڑوسی ملک جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، کا مقابلہ کرسکیں۔ ہمیں خود کچھ کرنے تو توفیق نہ ہوئی، انگریزوں سے ورثے میں ملنے والی محکموں اور انفراسٹرکچر کو بھی کمزور کر کر کے گرا دیا۔ مدت ہوئی ہم کوئی ایسا نام پیدا نہ کرسکے۔ ہم انسانیت کی فلاح اور خدمت کےلئے کوئی غیرمعمولی کام نہ کرسکے، ایسی کوئی ایجاد نہ کرسکے، ایسا کوئی نظام نہ بنا سکے جس پر ہم سینہ ٹھونک کے دعوی کرسکیں کہ ہم وہ ہیں جس کا کوئی ثانی نہیں، ہمارے پاس انسانیت کی بہتری اور فلاح کےلئے ایسی ایجادات ہیں جو کسی دوسرے کا پاس نہیں۔

مملکت خداداد میں جو بھی آقتدار کی مسند پر بیٹھتا ہے، اس کا سب سے پہلا کلام یہ ہوتا ہے کہ پچھلوں نے خزانے میں جھاڑو پھیر دی ہے اور سب سے پہلا کام ساری دنیا میں در در جاکر بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی جاتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ اپنے ہی گھر میں نقب لگا کر چوری کرنا اور اپنے ہی گھر کو لوٹنا، اسکی ساری چیزیں کوڑیوں کے دام بیچنا یا نیلام کرنا کمینگی کی انتہا ہے۔ کسی کا ضمیر اس مملکت خداداد کے اجتماعی وجود کو نوچ نوچ کر کھانے پر اسے ملامت نہیں کرتا۔ تو ایسے میں چارلس ڈیگال جیسے لوگ کہاں پیدا ہوسکتے ہیں۔ جو ایسے بننے لائق تھے ان کو ہم نے دیوار سے لگایا بلکہ یوں کہیں کہ تختہ دار پر لٹکایا۔ جو باقی رہے ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ چارلس ڈیگال بننے کا سوچ سکیں۔

ہر نئی آنے والی آفت میں عوام کے ناتواں کندھوں پر مزید بوجھ لادھا جاتا ہے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کی نازک مالی حالت کو سدھارنے کےلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ وہ پیٹ پر پتھر باندیں گے لیکن بیرونی اندرونی قرضوں کی ادائیگی کےلئے ہر چیز پر ایک بار نہیں بلکہ بار بار ٹیکس دیں گے، تب تک خزانے کو بھرنے کےلئے ٹیکس دیں گے جب تک چمڑی نہ اتر جائے۔ ہر صاحب اقتدار اور عالی مسند نشین یہ نصیحت، اپیل، گذارش یا باقاعدہ حکم دے کر گردان کرے گا کہ اگر عوام تعاون نہیں کریں گے تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

حالانکہ خود اور حکومت میں موجود وزیروں، مشیروں، قسما قسم عہدیداروں، اسکے علاوہ بیوروکریٹوں، اعلی سول و فوجی حکاموں اور سیاسی حکومتوں سے مستفید ہونے والے ٹھیکداروں کی تو دولت کے انبار اندرون و بیرون ملک پڑے ہیں۔ انہیں یہ نہیں کہا جاتا کہ اپنی دولت لاکر یہاں انویسٹ کردیں۔

چارلس ڈیگال بننا اسے لئے مشکل ہے کہ ایسے حالات میں پہلے خود سے شروع کرنا پڑتا ہے، پہلے خود قربانی کےلئے پیش کرنا پڑتا ہے، پہلے خود پر ضرب پڑنے کا حوصلہ رکھنا پڑتا ہے۔