فضل رحمن
اقلیتی سیٹوں پر سلیکشن کے بجائے الیکشن کے ذریعے ہمارے نمائندوں کا انتخاب کیاجائے، الیکشن سے منتخب ہونےکا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ ہمارے مسائل حل کرنےمیں سنجیدہ ہونگے۔ یہ کہنا تھا باجوڑ اقلیتی برادری کے صدر پرویز مسیح کا۔
مختلف سیاسی پارٹیوں سے جب سلیکشن پر لوگ منتخب ہوتے ہیں تو وہ ہمارے مسائل کرنے کی بجائے اپنا اور اپنی پارٹی کے مفاد کے بارے سوچتے ہیں اور ہمیں کہتے کہ آپ لوگوں نے کونسا ووٹ دیا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے۔ پرویز مسیح بتاتے ہیں ؛؛ ہمارے خیال میں اقلیتی برادری کے مسائل صرف وہ لوگ حل کریں گے جو ووٹ سے منتخب ہوکر آئیں؛؛
45 سالہ یوسف بھی اپنے مسائل کے حوالے کافی پریشان لگ رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ دیگر مسائل کے ساتھ رہائش کے لئے کالونی نہیں ہے جس میں ہم خوشی سے زندگی گزار سکے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ باجوڑ میں جب وہ آئے تھے تو اس وقت سول کالونی کمپاوںڈ میں ان کے لئے ایک کمرے کا گھر پورا تھا لیکن اب انکے بال بچے اس گھر میں گزارا نہیں کرسکتے اور اس ضلعی انتظامیہ کمپاونڈ سے باہر سیکیورٹی وجوہات کے بنا پر رہ بھی نہیں سکتے ۔
یوسف نے مزید بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کو بھی کھلی کچہری بھی میں بتایا ہے کہ وہ اقلیتی برادری کی رہائش کے لئے کالونی بنانے پر غور کریں لیکن ابھی تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے۔
48 سالہ پرویزمسیح بتاتے ہیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب باجوڑ آئے تھے انکے مطابق علاقے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ مسیحی آباد ہیں جو چالیس سے زیادہ خاندان پر مشتمل ہیں لیکن وہ باجوڑ میں قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے 150 کلومیٹر دور نوشہرہ جاتے ہیں ۔
انکا کہنا تھا کہ باجوڑ کے منتخب ممبران کو بھی اپنے مسائل کے حوالے سے باربار بتایا گیا لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اگر ہمارا اپنا منتخب نمائندہ ہوتا تو ہمارے مسائل ضرور حل کرواتا۔
ووٹ کے حوالے سے جب پرویز سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ اب الیکشن قریب آیا توسیاسی لوگوں نےبھی ہمارے ساتھ ٹیلفون پررابطے شروع کی ہے اور ہر بارجب الیکشن قریب آتے ہیں تو یہ سیاسی لوگ الیکشن مہم کے دوران ہمارے ساتھ کافی وعدے کرکے چلے جاتے ہیں الیکشن جیتنے کے بعد پھر ہمارا حال تک نہیں پوچھتے ۔
پرویز کا مزید کہنا تھا کہ اقلیتی برادری کے لیے تمام محکموں میں بھرتی کے وقت پانچ فیصد کوٹے پر عملدراۤمد نہیں کیا جاتا جوان لوگوں کا بنیادی حق ہیں ۔
روبینہ یوسف ضلع باجوڑ میں گذشتہ 17 سالوں سے اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں اس بار وہ الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنا نہیں چاہتی ، وہ کہتی ہیں کہ دو بارباجوڑ میں انتخابات میں وہ ووٹ کاسٹ کرچکی ہیں لیکن انکے مطابق ابھی تک کسی سیاسی رہنما نے انکے مسائل نہیں سنے۔
وہ کہتی ہیں بچے زیادہ ہیں اور گھر چھوٹے اس وجہ سے کہ خواتین کوان گھروں میں رہنا کافی مشکل ہوگیا ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ مرد تو پھر بھی سارا دن گھر سے باہر ہوتے ہیں انکا یہی خیال تھا کہ اگر اقلیتی برادری کی سیٹوں پر سلیکشن کے بجائے الیکشن پر لوگ اجائے تو وہ انکے مسائل حل کرواسکتے ہیں۔
مئی 2018میں پچیسیویں آئینی ترمیم کے ساتھ سابق 7 قبائلی ایجنسیز اور 6 ایف آر ز کو صوبہ خیبر پختونخوا کاحصہ قرار دیا گیا اور پہلی بار ملک کے آئین اور تمام سرکاری اداروں کے توسیع ان علاقوں کو ہوئی جن میں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد بھی ممکن ہوا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ضم اضلاع کو 16جنرل، 4خواتین اور ایک نشست اقلیتی برادری کے لئے مختص کردیا گیا جس سے صوبے میں مجموعی طورپر صوبائی اسمبلی کے نشستوں کی تعداد بڑھ 145تک پہنچ گیا۔ مذکورہ اعدادشمار میں 26خواتین اور چار اقلیتی برادری کے لئے نشستیں مختص کردئیے گئے۔
باجوڑ مسیحی برادری کے صدرپرویزمسیح نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قبائیلی اضلاع کی اقلیتی برادری کے لئے قومی اسمبلی میں بھی سیٹ دیا جائے تاکہ صوبے کی ساتھ ان اضلاع کی اقیلیتوں کو قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی مل جائے ۔
پرویزمسیح کے مطابق باجوڑ میں اقلیتی برادری کے لگ بھگ 80 رجسٹرڈ ووٹ ہیں۔
ملک میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی تعداد 2018 میں چھتیس لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کراب چوالیس لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
2013کے عام انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹرز کی تعداد ستایس لاکھ ستر ہزار تھی۔ ملک بھر میں ہندو ووٹرز 20 لاکھ 73 ہزار 983 جبکہ مسیحی 17 لاکھ 3ہزار288 ہیں اور باقی اقلیتوں کے ووٹ 1 لاکھ 74 ہزار 165 ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 36 لاکھ 31 ہزار 471 تھی۔
خیبر پختونخوا میں زیادہ رجسٹرڈ وٹ ضلع پشاور میں 19 ہزار 749، نوشہرہ میں 4 ہزار 723، کوہاٹ میں 30 ہزار 036، خیبر میں 2 ہزار 314، ایبٹ آباد میں ایک ہزار 951 ووٹرز رجسٹرڈہیں۔ خیبر پختونخوا میں 5 اضلاع ایسے ہیں جن میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔ ان میں کولئی پالس میں 8، کوہستان لوئرمیں 12، چترال اپرمیں 19، کوہستان اپر میں 25 اور کرک میں 89 ووٹ کے لئے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔
ائین پاکستان کے ارٹیکل 51کے مطابق قومی اسمبلی میں 336 نشستوں میں اقلیتوں کے لئے 10 اور ارٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں صوبہ خیبرپختونخوا کی 4، پنجاب کی 8، سندھ کی 9، اور بلوچستان کی 3 سیٹیں مختص ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جب کہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔
ثنا مسیح اقلیتی برادری سے سال 2021 بلدیاتی انتخابات میں کونسلر سیٹ پرمنتخب ہوئی تھی اس وقت انکا خیال تھا کہ وہ اپنی برادری کے مسائل بہت حد تک حل کروالیں گی لیکن فنڈ نہ ملنے کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہ کرسکی ۔
ثنا کہتی ہے کہ اب تک میں صرف اپنی کمیونٹی کیلئے ایک ٹرانسفرمر ہی منظور کرواسکی ہوں ،باقی کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ ہمیں فنڈز نہیں ملے۔
ثنا کا مزید کہنا تھا کہ اقلیتی خواتین کے بھی کافی مسائل ہیں ۔ اقلیتی مردوں کیساتھ ساتھ اقلیتی خواتین کو بھی خاص سیٹیں دی جائے یا اقلیتی سیٹوں میں اقلیتی خواتین کیلئے خصوصی کوٹہ مختص کیا جائے۔