حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں 16 فیصد جبکہ بلوچستان کی آبادی میں 74 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ملک کی پہلی ڈیجیٹل اور مجموعی طور پر ساتویں مردم شماری 15 مئی کو اختتام پذیر ہوئی ہے اور اب اعداد وشمار کا تجزیہ شروع کر دیا گیا ہے۔
کمشنر مردم شماری بلوچستان نور احمد پرکانی کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ 15 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح 2017ء کی مردم شماری کے مقابلے میں ملک کی مجموعی آبادی میں بلوچستان کا حصہ 6 فیصد سے بڑھ کرتقریباً 9 فیصد ہو گیا ہے۔
بعض ناقدین نے بلوچستان کی مردم شماری کے نتائج پر حیرت کا اظہار کیا ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ پچھلی مردم شماری میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے درست نتائج حاصل نہیں ہو سکے تھے اس لیے آبادی میں اضافے کی شرح غیر معمولی نہیں۔
صوبے کی سیاسی جماعتوں نے اس اضافے کو خوش آئند پیشرفت قرار دیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ قومی اسمبلی میں نمائندگی اور وسائل کی تقسیم میں حصہ بڑھنے کے نتیجے میں صوبے کی محرومیوں میں کمی آئے گی۔
کمشنر مردم شماری بلوچستان نور احمد پرکانی نے سعودی نیوز ویب سائیٹ اردو نیوز کو بتایا کہ 15 مئی تک بلوچستان میں 2 کروڑ 15 لاکھ ایک ہزار 385 افراد کو شمار کیا گیا۔2017ء میں صوبے کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ تھی۔ پچھلی مردم شماری کے مقابلے میں بلوچستان کی آبادی میں 91 لاکھ نفوس یعنی 74 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان کے کئی اضلاع میں آبادی میں بڑے پیمانے پر اضافے کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ 5 مئی کے اعداد و شمار کے مطابق صوبےکے تین اضلاع واشک، پنجگور اور خاران کی آبادی میں 224 سے268 فیصد اور سات اضلاع کی آبادی میں 90 سے 157فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
ایران سے ملحقہ ضلع واشک کی آبادی 2017ء کے مقابلے میں 1لاکھ 75 ہزار سے بڑھ کر 6 لاکھ 47 ہزار، پنجگور کی آبادی 3 لاکھ 15 ہزار سے بڑھ کر 10 لاکھ 43 ہزار اور خاران کی آبادی ایک لاکھ 62 ہزار سے 5 لاکھ 28 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
کچھی اور شیرانی 157 فیصد، ہرنائی کی آبادی میں 152 اور زیارت کی آبادی میں 115 فیصد ہوا ہے۔ ضلع لسبیلہ 9 فیصد اضافے کے ساتھ فہرست میں سب سے نچلے نمبر پر ہے۔
مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کی آبادی میں بلوچستان کا حصہ 6 سے بڑھ کر تقریباً 9 فیصد ہو گیا ہے جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ قومی آمدن میں بلوچستان کے سالانہ حصے میں اربوں روپے کا اضافہ ہوگا۔ ملازمتوں کا کوٹہ بڑھے گا۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی میں 8 سے 10 نشستوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت یہ تعداد صرف 16 ہے۔
بلوچستان میں اس پیشرفت کو خوش آئند دیکھا جا رہا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت صوبے کی بیشتر جماعتیں کا مؤقف ہے کہ ماضی میں گنتی کے عمل میں غلطیوں کی وجہ سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے بلوچستان پسماندگی و محرومیوں کا شکار ہوا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء غلام نبی مری کے مطابق ماضی میں غیر شفاف مردم شماری، امن وامان کی خرابی، شورش، سیاسی جماعتوں کی غلطیوں، لوگوں کی عدم دلچسپی اور شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی آبادی کم ظاہر ہوئی۔ اس بار لوگوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ہے۔
انہوں نے نئی مردم شماری کے نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب ملازمتوں اور وسائل کی تقسیم میں بلوچستان کو اس کا حقیقی حصہ دینا چاہیے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے 1998ء کی مردم شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق سیاسی جماعتوں اور عوام نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے ، انہیں آہستہ آہستہ مردم شماری کی اہمیت و حساسیت کا ادراک ہورہا ہے ۔لوگوں کو اس بات کا شعور ہوا ہے کہ اسمبلیوں میں نمائندگی سے لے کر فنڈز ،ملازمتوں اورتعلیمی وظائف تک سب کچھ آبادی کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔
تاہم زیارتوال کہتے ہیں کہ ہرنائی، زیارت، موسیٰ خیل، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین اور چمن میں اب بھی بہت سے لوگ دستاویزات نہ ہونے، کاروبار اور موسم کی وجہ سے نقل مکانی سمیت مختلف وجوہات کی بناء پر گنتی ہونے سے رہ گئے ہیں ہم نے اسلام آباد اور کوئٹہ میں مردم شماری کے حکام کو خطوط لکھ کر درخواست کی تھی کہ گنتی میں مزید 2 ہفتے کی توسیع کی جائے لیکن ہمارا مطالبہ نہیں مانا گیا۔
بلوچستان میں مردم شماری کے نتائج پر بعض حلقوں نے تنقید بھی کی ہے۔ سابق وفاقی کمشنر مردم شماری حبیب اللہ خٹک کہتے ہیں کہ تمام حالیہ سرویز میں آبادی میں سالانہ شرح نمو 2.5 کے لگ بھگ ہے ایسے میں بعض علاقوں کی آبادی میں صرف پانچ چھ سالوں میں 100 سے 200 فیصد اضافہ تعجب کا باعث ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2017ء کی مردم شماری میں سویلین عملے اورپاک فو ج کے اہلکاروں نے الگ الگ ڈیٹا جمع کیا بعد میں دونوں کا موازانہ کرکے نتائج کو ترتیب دیا گیا لیکن اس بار نتائج کو دو مختلف ذرائع سے پرکھنے کا ایسا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔
اہم ادارہ شماریات کے حکام نے اس اعتراض کے جواب میں کہا ہے کہ اس بار بھی مخصوص بلاکس کا دوبارہ جائزہ لیا گیا اسی طرح جن اضلاع کے نتائج میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا وہاں کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے بتایا گیا کہ پچھلی مردم شماری میں ان اضلاع کے بیشتر علاقے رہ گئے تھے۔
کمشنر مردم شماری بلوچستان نور احمد پرکانی کے بقول بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی2017ء کی مردم شماری کی بیس لائن کو درست نہیں سمجھتیں انہیں اعتراضات تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘پچھلی مردم شماری میں امن وامان، مردم شماری عملے کو دھمکیاں، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، ہرنائی، سبی، آواران اور مکران میں مقامی لوگوں کی نقل مکانی جیسے مسائل تھے۔ اس بار ان میں سے زیادہ تر مسائل نہیں تھے اور مردم شماری کے عملے پر بھی کوئی حملہ ہوا اور نہ ہی انہیں کوئی خطرات لاحق تھے اس لئے انہوں نے آزادانہ کام کیا۔اینڈرئیڈ بیسڈ ٹیبلٹس کی مدد سے آسان اور جدید طریقے سے ڈیٹا جمع کرکے سیاسی جماعتوں کے تحفظات حل کئے گئے ہیں۔’
بلوچستان کے صحافی و تجزیہ کار عدنان عامر بھی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے اعداد و شمار کو صرف صوبے کی آبادی میں حیرت ناک اضافے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ 2017ء اور اس سے پہلے کی مردم شماریوں میں بلوچستان کی لوگوں کی درست گنتی نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2017ء کی مردم شماری میں عملے کو سیکورٹی کی وجہ سے صوبے کے کئی علاقوں تک رسائی نہیں تھی ،بدامنی کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ چکے تھے ، اعداد و شمار جمع کرنے کا طریقہ بھی پرانا تھا لیکن اس بار ایسے مسائل نہیں تھے ۔ کوئٹہ کے علاوہ باقی تمام اضلاع میں سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور عام لوگوں نے اس عمل میں دلچسپی لی ۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کی آبادی میں اضافہ غیر معمولی دکھائی دے رہا ہے۔
عدنان عامر کے بقول پاکستان کے وفاقی نظام میں سیاسی نمائندگی اور وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہے اس لئے بلوچستان کے لوگ اپنے حصے میں اضافے پر خوش ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ جہاں اس پیشرفت کا فائدہ ہے وہیں آبادی میں اضافے کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ وسائل پر دباؤ بڑھے گا۔غربت اور جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔
جہاں باقی بلوچستان میں آبادی میں زبردست اضافہ دیکھا گیا وہیں مردم شماری کی مدت میں توسیع سے قبل صوبائی دار الحکومت کوئٹہ کی آبادی میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی تھی جس پر صوبے کی تمام جماعتوں نے تشویش کا اظہار کیااور اسے زمینی حقائق کے برخلاف قرار دیا۔ 13 اپریل کو اسمبلی کے اجلاس میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کی آبادی میں 5 لاکھ کی کمی کے بعد 17 لاکھ ہوئی ہے۔
سیاسی جماعتوں نے سوال اٹھایا تھا کہ پچھلی مردم شماری میں ملک میں سب سے زیادہ سالانہ شرح نمو کوئٹہ کا 5.81 تھا تو اس بار شہر کی آبادی بڑھنے کی بجائے کیسے کم ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں کے ان تحفظات کے بعد کوئٹہ میں مردم شماری میں رہ جانے والے افراد کو شمار کرنے کے لئے 15 مئی تک توسیع کی گئی۔
ادارہ شماریات نے تسلیم کیا کہ کوئٹہ میں بیک وقت کئی مسائل نے مردم شماری کے عمل کو متاثر کیا۔کمشنر مردم شماری بلوچستان نور احمد پرکانی کے مطابق رمضان المبارک میں اوقات کار ، لوگوں کی جانب سے انکار،شہر میں رہائش پذیر افرادکاکوئٹہ کے بجائے آبائی اضلاع میں اندراج کرانے پر اصرار جیسے مسائل کی وجہ سے دار الحکومت کی آبادی کم ظاہر ہوئی۔مدارس، ہاسٹل اور ہسپتالوں میں رہنے والے لوگ بھی شمار ہونے سے رہ گئے تھے۔
نور احمد پرکانی کے مطابق توسیعی مدت میں اضافے عملے کو تعینات کرکے ان مسائل کو حل کیا گیا جس کے بعد اب کوئٹہ کی آبادی 22 لاکھ 69 ہزار سے بڑھ کر 28 لاکھ 22 ہزار تک پہنچ گئی ہے یعنی گزشتہ مردم شماری کی نسبت 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کوئٹہ کے بعد خضدار 15 لاکھ آبادی کے ساتھ دوسرا بڑا، کیچ 14 لاکھ آبادی کے ساتھ تیسرا اور پشین 13 لاکھ آبادی کے ساتھ صوبے کا چوتھا بڑا ضلع بن گیا ہے۔