حکومت بلوچستان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور انسانی حقوق سے وابستہ دیگرغیر سرکاری تنظیمیں یکطرفہ طور پر ریاستی اداروں پر تنقید کر رہی ہیں۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے یہ الزام ایک ایسے وقت میں لگایا ہے جب ایچ آر سی پی نے بلوچستان کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ لوگوں کی گمشدگی، معاشی مسائل اور میڈیا پر پابندیوں کے علاوہ کئی دیگرمسائل کی وجہ سے حکومت یا ریاست کے خلاف عوام کے غصے میں اضافہ ہوا ہے۔
ضیاء اللہ لانگو نے نشریاتی ادارے مشال ریڈیو سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ میں لاپتہ افراد اور سیکیورٹی پوسٹوں کا جو مسئلہ اٹھایا گیا ہے ان کے مطابق حقیقت میںایسا کچھ نہیںہے.
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کی صورتحال ایسی نہیں ہے جیسا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بیان کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ “وہ یہاں آتے ہیں اور صرف ایک طرف بتاتے ہیں،وہ ہمیں کوئی سیاسی کارکن دکھائیں جو غائب ہو گیا اور پھر پتہ چلا کہ ریاست ملوث ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن وہ دہشت گرد ہوتے ہیں.ریاست کسی ایسے شخص کو ہراساں نہیں کرتی جو پاکستان اور پاکستان کے آئین کو مانتا ہو اور جمہوریہ پر یقین رکھتا ہو۔ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن غائب نہیں کیا جاتا۔
ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ وہ اس بات کی حمایت نہیں کرتے کہ سکیورٹی چوکیوں پر لوگوں کو غیر ضروری طور پر ہراساں کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ چوکیاں صرف مسلح افراد کی نقل و حرکت کو روکنے اور لوگوں کی حفاظت کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ “آپ کو معلوم ہے کہ بلوچستان کے حالات کیسے ہیں، جب ہم نے کچھ سیکیورٹی چوکیاں ختم کیں تو لوگوں نے ہمیں فون کرنا شروع کر دیا کہ ہمیں خطرہ ہے ، لیکن ہم مانتے ہیں کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں، ایف سی میں لوگ ہوں گے جو لوگوں کو ہراساں کرتے ہوں لیکن سب ایسے نہیں ہیں، اور اگر ہم نے ان سیکورٹی پوسٹوں کو ہٹا دیا تو اس کا بلوچستان کے حالات پر بہت برا اثر پڑے گا۔”
واضح رہے کہ ایچ آر سی پی نے 7 اپریل کو اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مشن اکتوبر 2022 میں بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں ایچ آر سی پی کے سربراہ حبیب طاہر خان کی سربراہی میں چھ رکنی مشن نے چھ ماہ تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لوگوں سے بات کی ہے اور اس کی بنیاد پر ایک رپورٹ تیار کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیپنڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ جبری گمشدگیوں، معاشی بدحالی، سیاسی نمائندگی کی کمی، میڈیا پر پابندیوں اور کام کے مواقع کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔
حبیب طاہر خان نےغیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایاکہ “بلوچستان میں لوگوں کی غیر قانونی گمشدگیوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں مل جاتی ہیں”۔ یہ واقعات اب بھی جاری ہیں، بہت ہیں، لیکن ان کے بارے میں کوئی خبر شائع نہیں ہوتی اور دوسری طرف بلوچستان میں ملیشیا فورسز کی چیک پوسٹیں ہیں، اس لیے لوگ خاص طور پر ان دو مسائل کی وجہ سے ناراض ہیں۔”
انہوںنے کہاکہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کئی تجاویز دی ہیں، جنہیں وہ حکومت کو پیش کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن بلوچستان کے بارے میں پہلے ہی پانچ رپورٹس شائع کر چکا ہےتاہم صرف انسانی حقوق کمیشن ہی نہیں انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بلوچستان امور کے تجزیہ کار اور مصنف محمد علی تالپور کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رپورٹس بلوچستان کے حالات سے عوام کو آگاہ کرتی ہیں لیکن ان کا حکومتی پالیسیوں پر ابھی تک کوئی اثر نہیں پڑا۔ “اس طرح کی رپورٹس اس لیے ضروری ہیں کہ لوگ بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے خلاف ہونے والے مظالم سے آگاہ ہوں لیکن حکومت پر ایسی رپورٹس کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایچ آر سی پی نے ایک بار بلوچستان کے بارے میں ایک جامع رپورٹ شائع کی تھی۔ ایس پی آر نے اس رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا.
واضح رہے کہ بلوچستان میں برسوں سے لوگوں کی گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچ قوم پرست اس سب کا الزام پاکستان کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر عائد کرتے ہیں تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سرگرمیاں پاکستان دشمن ممالک کا ایجنڈا ہے۔