سماجی برائیوں کے معاشی اثرات

زاہدہ بی بی

معاشرتی برائیاں نام ہے عقل و ارادہ کی کمی کا، جب انسا ن میں عقل و ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے تووہ برائیوں کی طرف مائل ہوتا ہے جس سے وہ خود اور اسکا معاشرہ تباہ ہوتاہے اور انسان کو انفرادی واجتماعی اور مادی نقصان پہچتا ہے۔جب کسی قوم میں یہ برائی عام ہوجاتی ہے تو قوم وملک کی ہلاکت وبربادی کی سبب بنتی ہیں۔

آج ہمارا معاشرہ مختلف برائیوں میں مبتلا ہے۔ان برائیوں کی وجہ سے پورا معاشرہ پریشانیوں کا شکار ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ۔ملاوٹ، تعصب، خیانت، سفارش۔سود، رشوت، ناانصافی اور دیگر سماجی برائیوں پائی جاتی ہے۔ ذیل میں چند ایک جو معاشی ناہمواری پیدا کرنے کی سب بنتی ھے کا ذکر کیاجاتا ہے۔

ملاوٹ یعنی اچھی چیزوں میں خراب چیزوں کو ملانا، معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل رہی ھے۔ یہ نہ صرف انسانی جانوں کے ساتھ کھیل ہے۔ بلکہ حرام کمائی سے بچوں اور گھر والوں کا پیٹ بھی بھرنا ھے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ترجمہ:جسں نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔

اسکے علاوہ رشوت کا بازار بھی ہر طرف گرم ھے۔ ہر جائز و ناجائز کام رشوت کے بغیر ناممکن ہو گیا ھے،رشوت نے معاشرے کی جڑوں کو ہلا کر رکھا ہے کسی محکمہ میں بھی چلے جاؤ تو رشوت کے بغیر کام ہی نہیں چلتا اپنا حق لینے کےلے بھی رشوت بھی دینی پڑتی ہے .حدیث نبوی ھے “رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں”۔ لیکن مسلمان ھوتے ھوئے بھی اس کام سے نہیں رکتے۔ رشوت ایسا لیا جارہاہوتا ھے جیسے لینے سے اجر مل رہا ھو۔

جھوٹ تمام معاشرتی و سماجی برائیوں کی بنیاد ھے۔ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بول کر نجی محفلوں میں فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں کہ اسکو پتہ چلنے تک نہیں دیا۔ سماجی تعلقات و رشتوں میں جھوٹ، کاروبار میں جھوٹ، سیاست میں جھوٹ، گھر میں جھوٹ، دفتر میں جھوٹ۔ مختصر چھوٹے بڑے سب اس برائی میں کافی حد تک مبتلا ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ ۔ “جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے” اور ہمارے معاشرے پر یہ لعنت ہر وقت برس رہی ھے۔

سماجی برائی میں سے ایک برائی گداگری بھی ہے، آج کل بھیگ مانگنے کو پیشہ بنا لیا ہے ،بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے.ریلوے سٹیشن، بس سٹاپ، تفريحی مقامات پر اور بازار میں ہر جگہ بھکاری نظر آئینگے۔ مستحقین و ضرورت مندوں کے حق پر ان کاروباری بھکاریوں نے ڈاکہ ڈال رکھا ھے۔ گداگری کی شکل میں چور، انسانی سمگلرز و اغواء کار اور بدفعلی (جو ایڈز اور دوسرے بیماریوں کا سبب بھی بنتا ھے) پھیلانے والے گروہ بھی متحرک ہیں۔ یعنی گداگری کے ساتھ یہ جملہ برائیاں بھی وابستہ ہیں۔ ان برائیوں کی روک تھام کےلئے ضروری ھے کہ گداگروں کے ساتھ بلکل بھی تعاون نہ کیا۔ نہ انکو پیسہ دیا جائے نہ دوسری اشیاء (یعنی ریڑی والے ٹماٹر اور پیاز وغیرہ )۔ گداگری کا ملکی معشیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ پیسہ نہ ٹیکس نیٹ میں آتا ہے نہ کاروبار کی طرح دوسروں کےلئے سود مند ثابت ھوتا ھے یعنی وہ برکت نہیں ھوتی جسے کئی لوگوں کو فائدہ ھو۔ اس لئے اسلام نے گداگری کو منع کیا ھے۔

دیگر سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ سود نہ صرف معاشرتی برائی ھے بلکہ معاشی جبر ھے جس میں ایک فریق کو دی ھوئی رقم سے زیادہ دینے کا پابند کیا جاتا ھے۔ سود خوری سماجی برائياں میں بہت بڑا گناہ ہے یہ برائی زمانہ جاہليت میں عربوں میں پائی جاتی تھی آج ہمارے اندر یہ برائی عام پائی جاتی ہے غریب آدمی مجبوراً سود لیتا ہے قرآن مجید میں اس گناہ سے منع کیاہے ارشاد باری تعالیٰ ہیں ترجمہ ۔اے ایمان والوں سود نہ کھاؤ۔سود سے معاشی ترقی نہیں ھوتی بلکہ اس کیوجہ سے معاشرے ایسا نظام پروان چڑھتی ہے جہاں رقم دینے والے ہمیشہ نفع لیتا ھے اور قرض لینے والے کو مستقل خسارہ برداشت کرنا پڑتا ھے۔ ایک طبقہ غریب ھوتا جارہا ھوتا ھے جبکہ دوسرا امیر۔ جس سے معاشی و معاشرتی ناہمواری جنم لیتی ھے۔

کوئی معاشرہ ان معاشی برائیوں کے ھوتے ھوئے خوشحال اور مستحکم نہیں ھو سکتا۔ معاشی اور سماجی برابری کے لئے ضروری ہے کہ ان برائیوں کے خاتمے کے لئے انفرادی و اجتماعی طور پر جدوجھد کیا جائے۔