سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
آج بدھ کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیل کی ابتدائی سماعت کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا۔
عدالت نے عبوری اور مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ انٹراکورٹ اپیل کے فیصلے تک فوجی عدالتوں میں جاری ٹرائل کرتے ہوئے کسی بھی عام شہری کو حتمی سزا نہیں سنائی جائے گی۔
پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔
چھ رکنی عدالتی بینچ کے پانچ ججز نے اکثریت سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کیا جس کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پانچ ججز سے اختلاف کیا۔
سماعت کے آغاز پر تحریک انصاف سابق چیئرمین عمران خان کے وکلا لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن نے بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود پر اعتراض کیا تاہم انہوں نے تحفظات مسترد کرتے ہوئے بینچ سے الگ ہونے سے انکار کیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلا سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا اس حوالے سے فیصلہ پڑھ لیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ جج کی مرضی ہے کہ بینچ کا حصہ رہے یا مقدمہ سننے سے معذرت کرے۔
وکیل فیصل صدیقی نے اعتراض کیا کہ حکومت نجی طور پر وکلا کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی، اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہی وزارتوں اور حکام کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ وکلا کی خدمات حاصل کرتے ہوئے قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ مناسب ہوگا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔