بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد گوادر اور کوئٹہ سمیت صوبے کے کئی شہروں میں دو ہفتوں سے جاری دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مذاکرات کی کامیابی کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اعلان کیا کہ جمعے کو گوادر میں میرین ڈرائیور پر جلسہ کر کے دھرنے کے شرکاء قافلے کی صورت میں تربت روانہ ہوجائیں گے۔
گوادر میں بلوچستان کے سینیئر وزیر ظہور احمد بلیدی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے درمیان گزشتہ کئی دنوں سے مذاکرات چل رہے تھے جو جمعرات کی شب کو کامیاب ہو گئے۔
گوادر پولیس کے مطابق شرکاء نے دس بجے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا،انہوں نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا ہے تاہم جلسہ اب تک جاری ہے۔
پولیس کے مطابق گوادر کے علاوہ کوئٹہ میں سریاب روڈ، نوشکی میں سٹیشن چوک اور تربت میں شہید فدا چوک پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دھرنے بھی اب تک جاری ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء بیبرگ بلوچ نےغیرملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہم نے اپنا احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ہمیں اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا انتظار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کوئٹہ کی ڈسٹرکٹ جیل ہدہ میں بیٹھے ہیں جیسے ہی گرفتار افراد رہا ہوں گے وہ انہیں لے کر کوئٹہ دھرنے میں لے کر جائیں گے اور اس کے بعد احتجاج ختم کر دیں گے۔
گوادر کے صحافی صداقت بلوچ کے مطابق دھرنے کی وجہ سے حکومت نے شہر کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے شہر میں خوراکی اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی تھی۔
گوادر اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں یہ احتجاج 27 جولائی کو اس وقت شروع ہوا تھا جب حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) کے عنوان سے 28 جولائی کو ہونے والے جلسے کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
حکومت نے مستونگ، تربت، گوادر، نوشکی، حب، لسبیلہ اور پنجگور سمیت مختلف شہروں میں راستے بند کر کے شرکاء کو روکا تھا جس پر سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
ان جھڑپوں کے بعد مظاہرین نے مختلف شہروں میں سڑکیں بند کر کے دھرنے دیے جبکہ حکومت نے مظاہرین کو گوادر جانے سے روکنے کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے راستے بند رکھے ہیں۔گوادر میں تب سے موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ ان جھڑپوں میں تین افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے تشدد سے ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا کہ حکومتی وفد نے دھرنے کے مطالبات منظور کر لیے اس لیے دھرنے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مطالبات میں بلوچ راجی مچی کے تمام گرفتار شرکاء کی رہائی اور ان پر درج مقدمات کا خاتمہ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان کو ہراساں نہ کرنے اور ان کے خلاف مقدمات درج نہ کرنے، گوادر اور مکران کی تمام شاہراہیں کھولنے اور نیٹ ورک کی بحالی شامل ہے۔
حکومت کے ساتھ یہ بھی طے پایا ہے کہ احتجاج کے دوران ہلاک و زخمی ہونے والوں کے مقدمات ریاستی اداروں کے خلاف درج نہ ہونے پر قانونی چارہ جوئی کا حق ہوگا۔ احتجاج کے دوران عوام کے مالی نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریری معاہدے میں طے پایا ہے کہ محکمہ داخلہ بلوچستان ایک نوٹیفکیشن جاری کرے گا کہ کسی بھی قسم کے پرامن اجتماع پر طاقت کا استعمال نہیں ہوگا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تمام نکات پر عملدرآمد کے لیے حکومت نے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے اور اگر کسی ایک نکتے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔