ڈاکٹر خان زیب
خیبر پختونخوا حکومت نے حالیہ فیصلے میں 4147 اسکول اور 55 کالجز کو آؤٹ سورس کرنے کی فہرست جاری کی ہے۔آؤٹ سورسنگ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ادارہ کسی مخصوص کام کے لیے اپنی بجائے کسی دوسری کمپنی یا فرد کی خدمات حاصل کرے۔ تعلیمی اداروں کی آؤٹ سورسنگ کو آسان الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت تعلیمی ادارے کسی نجی فرم، ادارے یا شخص کے حوالے کر دے گی اور ان کی ذمہ داریوں سے خود کو بری الذمہ قرار دے گی، سوائے فیسوں کی ادائیگی کے۔
اگر اس پالیسی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ عوام اور ملک کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے کئی بنیادی مسائل جنم لے سکتے ہیں جن میں سرکاری ملازمتوں کے مواقع میں کمی، اساتذہ کی ترقی میں رکاوٹ، اور قومی سلامتی و نظریاتی حدود کو نقصان پہنچنے کا خدشہ شامل ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق ہر بچے کو مفت تعلیم کا حق حاصل ہے۔ آؤٹ سورسنگ کے ذریعے یہ بنیادی حق متاثر ہوگا، کیونکہ ریاست اپنی ذمہ داری نجی ٹھیکیدار کے حوالے کرے گی۔ کیا بنیادی حقوق کو کسی نجی ادارے یا فرد کے سپرد کرنا دانشمندی ہے؟ اس فیصلے سے ریاست نہ صرف کمزور ہو گی بلکہ بلیک میل ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
اگر عوام کی جان و مال کا تحفظ نجی ادارے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تو تعلیم کو کیوں کیا جا رہا ہے؟ تعلیم کو پرائیویٹ اداروں کے سپرد کرنے سے قومی سلامتی کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ نجی ادارے قومی نظریات، ثقافتی اقدار اور سلامتی کے تقاضوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں اور نئی نسل کی ذہن سازی ایسے انداز میں کر سکتے ہیں جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آؤٹ سورس اداروں کی فیسیں حکومت ادا کرے گی، جب کہ باقی انتظامی امور نجی ادارے کے ذمے ہوں گے۔ حکومت نے یہ قدم ان اداروں کے کمزور نتائج کی وجہ سے اٹھایا ہے جن پر زیادہ وسائل خرچ ہو رہے تھے۔ لیکن موجودہ معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ ہے کہ حکومت جلد ہی فیسوں کی ادائیگی سے بھی دستبردار ہو جائے گی، جس کے بعد یہ بوجھ والدین پر آ جائے گا۔
زیادہ تر متاثرہ ادارے پسماندہ علاقوں اور خصوصاً سابقہ فاٹا میں واقع ہیں، جہاں پہلے ہی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اگر وہاں والدین بھاری فیسیں برداشت نہ کر سکے تو بچوں کو تعلیم چھوڑنی پڑے گی۔
یہ خدشہ بھی ہے کہ آؤٹ سورسنگ میں زیادہ دلچسپی وہی لوگ لیں گے جن کا سیاسی یا بیوروکریسی سے قریبی تعلق ہو گا۔ نتیجتاً یہ ادارے میرٹ کے بجائے ذاتی مفادات کی بنیاد پر نیلام ہوں گے، جیسا کہ ترقیاتی منصوبوں میں اکثر ہوتا ہے۔ اس طرح تعلیمی معیار بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو سکتا ہے۔
نجی ادارے عمومانمبروں پر توجہ دیتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ وہ اچھے گریڈ کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کریں۔ اس طرح تعلیم یافتہ مگر ان پڑھ” نسل سامنے آئے گی۔ دوسری طرف ریاست تعلیم کو محض منافع کا ذریعہ نہیں سمجھتی بلکہ قومی ترقی، معاشرتی یکجہتی اور اعلیٰ کردار کے حامل شہری پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔
مزید یہ کہ اگر نجی اداروں کو منافع نہ ملا تو حکومت کو آئی پی پیز کی طرح ان کا نقصان بھی پورا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب حکومت کئی سالوں سے اساتذہ کو ایم فل اور پی ایچ ڈی الاؤنس دینے میں ناکام ہے تو وہ نجی اداروں کو کس طرح فنڈز فراہم کرے گی؟
کیا حکومت نے ان اداروں کے مسائل حل کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوشش کی؟ مثال کے طور پر ڈگری کالج سام کی عمارت دو دہائیوں سے نامکمل ہے، وہاں صرف چار اساتذہ تعینات ہیں اور انرولمنٹ تقریباً 500 طلبہ کی ہے۔ اسی طرح ڈگری کالج لدھا بھی شدید مسائل کا شکار ہے۔ بعض اداروں کی عمارتیں اب بھی سیکورٹی فورسز کے قبضے میں ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسی غیر سنجیدہ پالیسی نہ تو برطانیہ، فرانس یا اسپین نے اپنی کالونیوں میں اپنائی تھی لیکن ایک آزاد ریاست میں (جہاں شرح خواندگی پہلے ہی کم ہے) یہ پالیسی لاگو کی جا رہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ آؤٹ سورسنگ جیسے بڑے فیصلے کرنے سے پہلے پسماندہ علاقوں کے حقیقی مسائل حل کرے، جیسے اسٹاف کی کمی، بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی اور سکیورٹی کے مسائل۔ پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ ان علاقوں میں جا کر عوام اور اساتذہ سے براہِ راست بات کریں۔
ممکن ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا ماڈل کاغذ پر دلکش لگتا ہو لیکن خیبر پختونخوا کے زمینی حقائق کے تناظر میں یہ ماڈل کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔