پاکستان کے تمام مسائل کا حل درست تقسیم وسائل

میر ویس جان
جدید مغربی جمہوریت کی رو سے جو طرزہائے حکومت بنائے جاتے ہیں ان میں وفاقی پارلیمانی طرز حکومت ، وفاقی صدارتی طرز حکومت کے علاوہ ون یونٹ پارلیمانی طرز حکومت اور ون یونٹ صدارتی طرز حکومت بڑی شکلیں ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں سے امریکہ وفاقی صدارتی طرز حکومت پر چل رہا ہے۔ برطانیہ نے ون یونٹ پارلیمانی طرز حکومت اپنائی ہے۔ انڈیا وفاقی پارلیمانی طرز حکومت پر چل رہا ہے۔ اب ان طرزہائے حکومتوں میں پاکستان بناتے وقت تہتر آئین میں جو طرز حکومت مناسب اور مملکت کے لئے مفید قرار دیا گیا وہ وفاقی پارلیمانی طرز حکومت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس مملکت کے چار یونٹ ہوتے ہیں۔ یعنی چار صوبے۔ اس طرز حکومت میں ہر صوبے کا نفع وتقصان اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ان کے وسائل ، ان کی تجارت، ان کا کسی بھی دوسرے ممالک سے کاروباری لین دین اپنا اپنا ہی ہوتاہے۔ کوئی کسی کے کام میں کام نہیں رکھتا۔ البتہ صرت تین چیزیں مشترک ہوتی ہیں آرمی ، کرنسی اور فارن پالیسی۔ یہ تین چیزیں وفاق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان چیزوں کو چلانے کے لئے وفاق ہر صوبے سے برابری کی بنیاد پر اپنا فنڈ وصول کرتا ہے۔ باقی اس طرز حکومت میں یہ چیز بھی شامل کیا گیا ہے کہ ہر صوبے کی پیداوار میں سے سب سے پہلے اپنے دیگر صوبوں کی کمی پوری کی جائے گی مگر وہ بھی مفت میں نہیں بلکہ زرمبادلہ کے حساب سے۔مثال کے طورپر ایک صوبے کا پانی ہے اس نے پانی سے پہلے اپنی ضروریات پوری کئےاور زیادہ ہونے والا پانی دوسرے ضرورتمند صوبے کو دیا۔ اس کے بدلے میں پانی دینے والے صوبے کو اناج وغیرہ دیا گیا۔ مگر باقی نفع ونقصان سب کچھ الگ الگ ہوگا۔

یہاں پر دو چیزیں واضح ہونے چاہیئے کہ ایک ہے ریاست اور دوسری ہے حکومت۔ ریاست ہمشہ قائم رہتی ہے وہ بدلنے والی چیز نہیں ہوتی جبکہ حکومت اپنی باری مکمل کرکے تبدیل ہوجاتی ہے۔ کبھی کسی ایک پارٹی کی اکثریت سے حکومت بنتی ہے کبھی دوسری پارٹی کی اور کبھی کبھار مخلوط حکومت بن جاتی ہے۔ ریاست کا سربراہ صدر ہوتا ہے جبکہ حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے۔

مگر ادھر پاکستان میں ایک ایسی طرز حکومت بنی ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ ادھر وفاقی پارلیمانی طرز حکومت ہے سہی مگر کچھ اس طرز کا ہے کہ یہاں ہر صوبے کا زمین کے اوپر پیدا ہونے والے وسائل اور پیداوار اپنے اپنے ہونگے۔ یعنی فصلیں اپنی اپنی ہونگی جبکہ زیر زمین جو وسائل ہیں وہ وفاق کیساتھ ہونگے۔ بالفاظ دیگر بلوچ اور پشتون کے وسائل وفاق کے ساتھ ہونگے جبکہ پنجاب اور سندھ کے وسائل ان کے اپنے ہی ہونگے۔

صرف یہی نہیں بلکہ وفاق کو جب پشتون بلوچ کے وسائل پہنچ جاتے ہیں۔ تو وہاں سے پوری دنیا کے قوانین سے یکسر مخالف ہوکر تقسیم کیا جاتاہے۔ یعنی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے جس کی کہیں بھی نہ مثال پایا جاتا ہے اور نہ کسی بھی مذہب یا قانون میں روا ہے۔

مثال کے طور پر ایک باپ کے چار بیٹے ہیں۔ باپ کی میراث ان چار بیٹوں میں تقسیم کیا گیا۔ وقت گزرنے کیساتھ ایک بھائی کے دس بچے پیدا ہوئے دوسرے کے پانچ، تیسرے کے چھ جبکہ چوتھے کے دو بچے ہیں۔ اب چاروں بھائی الگ الگ حساب کتاب لے کر زندگی گزار رہے ہیں مگر اتحاد اور یونٹی اور ترقی پانے کے لئے وہ ایک اتحاد نباکر اپنا کاروبار مشترک چلانے پر متفق ہوئے اورحساب کتاب ہر بھائی کا ظاہر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان چار بھائیوں کا نفع ونقصان ان کے بچوں کی تعداد کی بنیاد پر ان میں تقسیم کیا جائے گا؟ یا چار بھائیوں کی برابری کی بنیاد پر؟

ظاہر ہے کہ یہ نفع و نقصان چار برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ باقی ہر بھائی کی اپنی قسمت ،جس کی آبادی کم ہے تو اس کو بچت ہوگی اور جس کی زیادہ ہے اس کا گزارہ ہوگا، یہ تو اللہ تعالی ٰ کی تقسیم ہے۔

اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومیں آپس میں ایک دوسرے کی پہچان کے لئے پیدا کئے ہیں نہ کہ ایک قوم کی دوسری قوم پر برتری کے لئے۔ ہمارے ملک میں پانچ بڑی قومیں آباد ہیں جن میں چار قوموں کو کچھ حد تک اپنے اپنے یونٹس یعنی صوبے دیے گئے ہیں جبکہ ایک سرائیکی تاحال اپنی شناخت سے محروم ہےجو ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ اب ہم پہلے تو اس مغالطے میں ہیں کہ قوم پرستی بت پرستی ہے بابا یہ درست ہے مگر جو قوم پرستی نفرت پر مبنی ہو یا برتری کی بنیاد پر مبنی ہو وہ بت پرستی ہی ہوگی۔ جو چیز اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے، یعنی قوموں کو پہچان کے لئے بنائے ہیں اس کو بت پرستی کہنا شاید کفر تک کسی کو لے جائے۔ اب پہچان سے مراد ان کے ناموں سے لیکر ان کی زمینیں، ان کے وسائل، ان کے تمام نفع و نقصان ہے تاکہ کسی قوم کے حقوق پر دوسرا کوئی ناجائز قبضہ نہ کرسکے۔

پاکستان پہلے ایک وفاقی ریاست تھی۔ ایوب خان کے دور میں بدنیتی کی بنیاد پر ون یونٹ کردیا گیا۔ بعد میں پھر کس کس کے مفادات کی خاطر دوبارہ صوبے بنالئے گئے۔ جس میں پشتون قوم کے اٹک اور میاں والی کے ضلعوں کو پنجاب میں شامل کردیا گیا ۔ ژوب سے لیکر بولان تک کا علاقہ بلوچستان کے نام سے بنائے گئے صوبے میں شامل کردیا گیا جبکہ باقی علاقے کو شمال مغربی سرحدی صوبہ کی طرح ایک بے معنی نام سے بنایا گیا جس سے پشتون قوم سے قرآن پاک کا دیا گیا حق یعنی پہچان چھین لیا گیا۔

کافی عرصہ بعد اے این پی کی کوششوں سے موجودہ این ڈبلیو ایف پی کے زیر سایہ والے پشتون علاقے کو خیبر پختونخوا کا نام تو دیا گیا مگر پختونخوا کے ساتھ زبردستی سے خیبر کا لفظ شامل کردیا گیا تاکہ یہ قوم ایک بار پھر اپنے نام سے محروم رہے جس کے نتیجے میں غیر اختیاری طور پر پشتون سمیت ساری دنیا اس صوبے کو (کے پی) کے نام سے پکارتے ہیں کوئی بھی پختونخوا سے نہیں پکارتا۔

اب آتے ہیں وسائل کی تقسیم کی طرف،ان وسائل پر پنجاب کو آبادی کی بنیاد پر 55 فیصد ، سندھ کو 18 فیصد ، پشتونخوا کو 12 فیصدجبکہ باقی 15 فیصد وفاق نے اپنے لئے مقرر کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پشتونخوا وطن کے اپنے ہی پیدا کردہ وسائل پر ان کے اپنے بچوں کا صرف 12 فیصد حق دیا گیا ہے۔ یعنی پشتون بچوں کو اپنے ہی پانی ، بجلی ، جپسم، کرومائٹ، گرینائٹ، کاپر، ماربل ، گیس ، آئل، زمرد، سونا، چاندی، جنگلات سمیت پچیس سے زائد معدنیات پر 12 فیصد حق دیا گیا ہے جبکہ ان ہی پشتون وسائل پر پنجاب کے بچوں کا 55 فیصد حق ہوگا۔ اسی طرح بلوچ وطن کے پیدا کردہ گیس، کوئلہ، آئل، ماربل ، کاپر، گرینائٹ، کرومائٹ، زمرد، سونا سمیت پچیس سے زائد معدنیات پر ان کے بچوں کا صرف 8 فیصد حق ہوگا جبکہ انہی وسائل پر پنجاب کے بچوں کا الگ 55 فیصد حق ہوگا جبکہ دوسری جانب پنجاب اور سندھ کے پیداوار گندم، کپاس، چاول ، چنے، وغیرہ پر صرف اور صرف ان ہی کا حق ہوگا دوسرے یونٹس کا کوئی حق نہیں بنتا۔ یہی نہیں بلکہ جب فصلوں کی کٹائی مکمل ہوجائے تو یہ صوبے فورا” صوبہ بندی لگا کر قیمت ادا کرنے پر بھی یہ خوراکی اجناس نہیں بیچنے دیتے۔

بلوچ اور پشتون اقوام کا حال یہ ہے کہ صرف ایک تیل رکھنے والے عرب ممالک کے باشندوں کے گھر بار خدمت اور مزدوری کرنے کے لئے بیس سے پچیس معدنیات رکھنے والے پشتون اور بلوچ نوجوانان اپنے اہل وعیال سے ہزاروں میل دور اپنی جوانیوں کو قربان کردیتے ہیں، اپنے بچوں سے دور عرب کے بچوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ ان کی طرح طرح مظالم اور طعنے برداشت کرتے ہیں جبکہ ان کے اپنے وسائل ان کے ہاتھوں میں نہیں ہےان پر دوسروں کا قبضہ ہے۔

معروف صحافی حامد میر کے ایک رپورٹ کے مطابق پشتونخوا کے شمالی وزیرستان کے ایک چھوٹے سے علاقے محمد خیل میں کاپر کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ صرف اسی کان سے آج تک چھ ہزار ارب ڈالر کا کاپر چین پر بیچا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ رپورٹ صرف ایک چھوٹے سے شہر کے ایک کان کی ہے اور اس کان سے نکالے گئے کاپر کا صرف چین کے ساتھ جو سودا ہوا ہےاس کی اتنی بڑی قیمت ہے جبکہ پاکستان پر ٹوٹل قرضہ دو ہزار ارب ڈالر ہے جس کی وجہ سے آج ہر پاکستانی جفا کشی سے چند قدم آگے خودکشی پر مجبور ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خطیر رقوم نہ ریاست کے کام آئے اورناہی عوام کے۔کہاں گئے؟ کس نے لئے؟ یہ ہم جان کر بھی نہیں جانتے۔

اب ہم بے شک سارے صوبوں والے مسلمان ہیں اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکسان رکھا ہےمگر یہاں پر میں بتاتا چلوں کہ ہمارے دیگر بھی کافی ممالک میں رہنے والے مسلمان آباد ہیں۔ پڑوس میں بھی ہیں اور دور بھی ہیں۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ اگر مسلمان ہونا ہمارا ایک مملکت بنانے کی وجہ ہے تو باقی تمام اسلامی ممالک ایک ہی ریاست میں ہوتے کیونکہ ہمارا مسلمانی کا رشتہ باقی بھی کافی دنیا سے قائم اور برقرار ہے۔ مگر پاکستان بنانے میں ہمارے چار یونٹس کا آپس میں ہمارا رشتہ صرف وفاق کا ہے۔ اور وفاق ایک آئین کے تاروں سے پیوست ہے۔ اگر دیگر جہان میں رائج اور ہمارے یونٹس کے درمیان لکھا گیا ایگریمنٹ یعنی آئین پامال کیا جاتا رہے۔ تو پھر یہ ریاست چلے گی کیسے؟ کامیابی کیسے حاصل کرے گی؟

ادھر ایک اشرافیہ نے جو ہاتھ کے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں سارے سسٹم اور آئین کو یرغمال بناکر ریاست کو ناکامی کی طرف لے جارہا ہے جوکہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور بدقسمتی سے ہماری تقریبا” تمام سیاسی پارٹیاں اس اشرافیہ کے لئے سہولتکاری کا کردار ادا کررہی ہیں جس کے بدلے میں ان کو حکومتیں دی جاتی ہیں اور دیگر مراعات سے نوازے جاتے ہیں۔

اب اشرافیہ اور اس کے سہولتکاروں کے دربار میں یہ درخواست کی جاتی ہے کہ پلیز عوام کے لئے نہ سہی، ریاست کے لئے نہ سہی مگر اپنے بچوں کے لئے اس ریاست پہ رحم کھائیں تاکہ آپ کے مراعات تو کم از کم چل سکیں ورنہ اگر یہی رویہ اور یہی حال رہا تو خاکم بدھن ، نہ بینڈ بجے گا اور نہ بھانسری۔