اسلام آباد:افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سیکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی امور پر بات چیت کے لیے چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے۔
کابل سے روانگی سے قبل افغانستان کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیا توکل نے کہا کہ عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی جامع سیاسی اور تجارتی وفد کی قیادت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت سیاسی، اقتصادی تعلقات، علاقائی سلامتی اور راہداری پر وسیع پیمانے پر دوطرفہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔
عبوری افغان وزیر خارجہ 6 مئی کو 5ویں چین-پاکستان-افغانستان سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھی شرکت کریں گے جبکہ چین کے اسٹیٹ قونصلر اور وزیر خارجہ چن گانگ بھی سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
قبل ازیں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے اس مطالبے کو دہرایا کہ بین الاقوامی برادری عبوری افغان حکومت کے ساتھ بامعنی بات چیت کرے تاکہ وہ واقعات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان بڑی طاقتوں کے لیے جنگ کا میدان بنتا رہا ہے، ہمیں افغانستان کے بارے میں ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو افغان حکام پر سیاسی شمولیت کے عالمی طور پر قبول شدہ اصولوں کو اپنانے اور لڑکیوں کے تعلیم کے حق سمیت تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرنے پر زور دینا جاری رکھنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی افغانستان، خطے اور پوری دنیا کی سلامتی کے لیے انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ بین الاقوامی برادری کے برعکس افغانستان میں دہشت گرد گروپ آپس میں زیادہ تعاون کر رہے ہیں، پاکستان عبوری افغان حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دینے کے اپنے وعدوں کو برقرار رکھیں۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے کام کرے تاکہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی حقیقی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف علاقائی انضمام اور اقتصادی تعاون بلکہ عالمی امن اور استحکام کی کلید ہے، ہمیں یقین ہے کہ ایس سی او افغانستان رابطہ گروپ افغانستان کے ساتھ عملی تعاون کو مربوط کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔
اگرچہ افغان وزارت خارجہ نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے کچھ معاملات پیش کیے ہیں جن پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جن میں دیگر مسائل بھی ہوسکتے ہیں جن کو پاکستان بھی حل کرنا چاہتا ہے۔
ان مسائل میں سے ایک مسئلہ پاکستان کی کابل سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرنے کی خواہش ہے جس کے بارے میں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی، افغان سرزمین سے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے، تاہم افغان طالبان نے ان دعووں کی تردید کی ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے نجی ٹی وی دان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ پاکستان کے لیے اہم مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ریاستی سطح پر ہموار اور رکاوٹ کے بغیر تعلقات اور بات چیت ہے۔
سابق سفارت کار نے کہا کہ اس کے لیے بارڈر مینجمنٹ، ویزا کے مسائل، تجارت اور ٹرانزٹ کے طریقہ کار میں قریبی تعاون کی ضرورت ہوگی۔
منصور احمد خان نے کہا کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر ان چیلنجز پر قابو پانا ممکن نہیں، اس کے لیے ایک جامع اور طویل مدتی نقطہ نظر ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں استحکام نے علاقائی اقتصادی انضمام اور رابطے کے لیے بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں۔