حیات پریغال
مسافر جہاں کا بھی ہو، دنیا میں جہاں بھی ہو، یورپ ہو چاہے امریکہ، جاپان ہو یا چاہے آسٹریلیا عرب و چین میں، غرض وطن سے دور ہر شخص مسافر ہے، اپنے شہر سے دور دوسرے شہر میں صرف روزگار کے لئے آباد شخص مسافر ہے، دنیا مسافروں کی کیمرے کے سامنے ہنسی و خوشیوں، سیلفیوں میں آئی مسکراہٹوں کو ایسے سمجھتی ہے جیسے مسافر دنیا جہان کے خوش قسمت لوگ ہیں۔ مسافری کی زندگی کی اس ایک مسکراہٹ، قہقہے یا خوشی کے پیچھے ہزاروں ایسے غم ہیں، دوریاں و مجبوریاں ہیں جن کو ہم مسافر دلوں میں دفن کر کے دنیا سے گزر جاتے ہیں، بظاہر بہتر زندگی کی تلاش میں، خاندان کا کوئی نا کوئی، یا بڑا مسافری کی اذیت سے ضرور گزرتا ہے۔
اپنوں سے دوری، بچوں والدین بہن بھائیوں دوستوں رشتہ داروں سے دوری میری نظر میں شاید بنی نوع انسان کے لئے سب سے بڑی سزا ہو، جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، جس کو بغیر ان مسافروں وطن و علاقے سے دور رہنے والوں کے کوئی محسوس نہیں کر سکتا۔ بچوں سے والدین و دوستوں سے صرف ایک بار گلے ملنے ان کے ماتھے چومنے کو کبھی کبھی اتنا دل کرتا ہے کہ شاید کمایا ہوا سب پیسہ ڈالرز، درہم ریال و یورو لٹا دوں صرف ایک بار ان کو گلے لگا لوں، لیکن آپ کچھ نہیں کر پاتے۔ سڑتے کڑھتے مرجھا جاتے ہیں۔
قید و بند کی سزائیں بھی ہم کاٹ چکے ہیں، یقیناً ایک قیدی کا درد صرف وہ بندہ سمجھ سکتا جو خود سلاخوں کے پیچھے رہ چکا ہو، لیکن مسافری اور وہ بھی بال بچوں سے دور اس احساس کو بھی شاید بہت کم لوگ محسوس کر سکتے ہیں۔ یقیناً مسافروں کو ضروریات زندگی کی کوئی کمی نہیں ہوتی، ہر ضرورت چاہے وہ جسمانی ہو یا دور اپنے بچوں کی ہو وہ پوری کر سکتا ہے، یہاں جہاں ہم رہتے ہیں، روزانہ اتنی خوراک ضائع ہوجاتی ہے جتنی ہم پورے گھر کے لئے اپنے وطن میں بناتے ہیں۔ لیکن ان تمام سہولتوں خوشیوں کے باوجود ہم نے ایک دن یہاں سے کوچ کر کے واپس اپنی مٹی جانا ہوتا ہے۔
بہت ساری چیزیں یادیں آپ لاکھ اپنا لیتے ہیں، لیکن ایک دن واپسی کر کے دوری لانا لازمی ہوتی ہے۔ ہر چیز میں اپنائیت کی کمی ہوتی ہے۔ آپ لاکھ کمرے سجا لیں، چیزیں خرید لیں، لیکن آپ کی ہوتے ہوئے بھی ایک نہ ایک دن آپ کو ان سے دوری لانی پڑتی ہے۔ آپ یہاں وہاں کے لاکھ ذائقے گھر کی روٹی دال پر بدلنے کو تیار نہیں ہوسکتے۔ آپ لاکھ کوشش کر کے دل لگا لیں، آپ کو ایک نہ ایک دن اپنا ہی دل توڑنا پڑتا ہے۔
مسافری میں ان امتحانات سے گزرنے کے بعد عمر کے جس حصے میں آپ واپسی کرتے ہیں تو بیوی کی جوانی و خوبصورتی ماند پڑ چکی ہوتی ہے، بہن پیا دیس سدھار کر بھلا چکی ہوتی ہے، والدین منوں مٹی تلے دب چکے ہوتے ہیں، بغیر باپ کے بچے ماں کے سائے میں ایسے جوان ہو جاتے ہیں کہ گھر میں آپ کی لاکھ موجودگی ان کے سامنے صرف ایک زندہ لاش کی ہوتی ہے۔ بیوی آپ کے ہاتھوں کے لمس کا وہ بیس تیس سال پرانا احساس ایسے کھو چکی ہوتی ہے جیسے آپ کسی پتھر پر ہاتھ پھیر رہے ہوں۔
آپ لاکھ کوشش کر کے مٹی سے ٹوٹے ناتے کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کریں وہ کسی بھی طاقت یا بانڈ سے جڑنے کا نام نہیں لیتا۔ یو مسافری کی زندگی آپ کو دنیا مافیا سے الگ تھلگ مٹی و رشتوں سے دور کر کے ایسا کھوکھلا کر دیتی ہے کہ شاید پھر قبر میں منوں مٹی بھی اس کھوکھلے پن کو بھر نہیں سکتی۔ مسافری۔ خواری۔ بیزاری!