ایران اسرائیل کشیدگی: پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کیلئے کڑا امتحان

داؤد خٹک
جب حال ہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی،عین اسی وقت اس کا علاقائی اتحادی ایران اسرائیل کی میزائل بمباری کی زد میں تھا . اسرائیل وہ ملک ہے جو امریکہ کا قریبی اتحادی اور پاکستان کا دیرینہ حریف سمجھا جاتا ہے۔

خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں یہ دونوں واقعات اس پیچیدہ سفارتی بساط کو نمایاں کرتے ہیں جس پر پاکستان کو قدم بہ قدم سوچ سمجھ کر چلنا پڑ رہا ہے، جہاں اسے متضاد طاقتوں سے تعلقات، فرقہ وارانہ تناؤ، اور تزویراتی مفادات کے درمیان توازن قائم رکھنا ہے۔

ایران، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان توازن
پاکستان کو ہمیشہ امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کے چیلنج کا سامنا رہا ہے لیکن ایران اور دیگر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات سنبھالنا ایک اور مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔

حالیہ دنوں اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر 12 روزہ بمباری نےاس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا، ایسے وقت میں جب آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ٹرمپ سے ایک غیرمعمولی ملاقات کی جو دو گھنٹوں سے زائد جاری رہی۔

اس ملاقات کی تفصیلات خفیہ رکھی گئیں۔ صرف اتنا بتایا گیا کہ فیلڈمارشل عاصم منیر نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ جھڑپوں کو ختم کرنے میں امریکی سفارتی کردار پر ’’گہری قدردانی‘‘ کا اظہار کیا۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے بھی کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا اور صدر ٹرمپ نے محض اتنا کہا کہ وہ فیلڈ مارشل عاصم منیرسے ملاقات کو ’’اعزاز‘‘ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے لیے نازک سفارتی صورتحال
تجزیہ کار سحر خان نے اٹلانٹک کونسل کے لیے اپنے بلاگ میں لکھاکہ پاکستان اب ایک ایسے نازک مرحلے پر ہے جہاں اسے ایران کی حمایت کرنی ہے مگر ساتھ ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے بڑے مالیاتی معاونین کو ناراض بھی نہیں کرنا اور نہ ہی امریکہ کو جس کے ساتھ وہ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے دوران پاکستان میں سنی اکثریتی آبادی کی ایک بڑی تعداد نے ایران کی حمایت کی،ایک ایسا منظر جو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ تاثر تھا کہ ’’میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے۔‘‘

اگرچہ پاکستان میں بیشتر لوگ اسرائیل کو بھارت کے بعد دوسرا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں لیکن ایران کے لیے ان کی ہمدردی زیادہ گہری نہیں جس کی بڑی وجہ فرقہ وارانہ کشیدگی ہے۔ سخت گیر سنی گروہ اکثر شیعہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ جذبات فریقین میں باہمی ہوتے ہیں۔

پاکستان کی آبادی کا اندازاً 80 سے 85 فیصد حصہ سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ ایران کی تقریباً 90 سے 95 فیصد آبادی شیعہ ہے۔ پاکستان کو کئی بار ایران کے پاکستان میں شیعہ اثر و رسوخ پر تشویش رہی ہے خاص طور پر خیبر پختونخوا کے ضلع کرم اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں۔

دوسری جانب، ایران بھی پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ سنی شدت پسند گروہ ’’جیش العدل‘‘ کی حمایت کرتا ہے جو ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں سرگرم ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو اکثر انسانی اسمگلنگ اور منشیات کی نقل و حرکت کا مرکز بنی رہتی ہے۔

سفارتی توازن: ایران، سعودی عرب، چین اور امریکہ کے درمیان
باوجود کئی اتار چڑھاؤ کے، ایران اور پاکستان کے تعلقات عمومی طور پر مستحکم رہے ہیں، اور دونوں ممالک اکثر اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

لیکن سعودی عرب اور ایران جو مشرق وسطیٰ میں دو بڑے نظریاتی حریف ہیں کے درمیان توازن رکھنا پاکستان کے لیے ایک اور پیچیدگی ہے۔

تجزیہ کار مائیکل کگل مین کے مطابق پاکستان کا ماضی میں مختلف اتحادوں میں شامل ہونا اس کی سفارتی لچک کو محدود کر دیتا ہے۔ امریکہ، چین اور سعودی عرب کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات اسے ان طاقتوں کے حریفوں سے مضبوط تعلقات قائم کرنے کی آزادی نہیں دیتے۔”

اس کے برعکس بھارت نے ہمیشہ اتحادوں سے گریز کیا، جس سے اسے سفارتی طور پر زیادہ لچک حاصل ہوئی۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے تعلقات میں بہتری کی جانب قدم بڑھائے ہیں، جو پاکستان کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

کگلمن کے مطابق ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحتی معاہدہ پاکستان کو ایران سے روابط بہتر بنانے کا مزید سفارتی موقع فراہم کرتا ہے اور اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد پاکستان اور ایران کے مفادات میں کچھ ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن یہ سب اب بھی پاکستان کے لیے ایک نازک سفارتی توازن کا تقاضا کرتا ہے۔

فرقہ واریت کا اثر
مذہب بھی اس سفارتی توازن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں سنی اکثریتی ممالک ہیں، جبکہ ایران ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے، اور ان کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی اکثر پراکسی جنگوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) اسلام آباد کے پروفیسر خالد سلطان کے مطابق:
“فرقہ وارانہ تقسیم، خطے میں تزویراتی صف بندی، افغان تناظر، سرحدی سیکیورٹی اور شدت پسندی یہ سب پاکستان اور ایران کے تعلقات کو پیچیدہ بناتے ہیں۔”

ان کے مطابق شام، عراق اور یمن میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگوں نے بھی پاکستان کو سفارتی طور پر مشکل صورتحال میں ڈال رکھا ہے۔
نوٹ : یہ تحریر 8 جولائی کو ریڈیو فری یورپ کی ویب سائیٹ پر شائع ہوچکی ہے .

اپنا تبصرہ بھیجیں