شہریار محسود
خیبرپختونخوا میں اس وقت کیا ہورہا ہے؟ حکومت کو اس کی کتنی فکر ہے؟ حالات و واقعات اور ن لیگ کی لیڈرشپ کے بیانات سے ثابت ہورہا ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی بساط پنجاب تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ پنجاب کو جیتنے کی کوشش میں وفاق کو ہرانے کا سبب نہیں بن رہی؟ وہ بھی اک ایسے وقت میں جب ریاستی ادارے خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں حالتِ جنگ کا سامنا کررہی ہے۔
اس وقت مسلم لیگ ن کے سیاسی مفادات یقیناً ریاستی مفادات پرغالب آچکی ہیں، اس لیے ان سوالوں کے جواب تو درکنار وہ اس بارے میں سوچتی ہوئی بھی نظر نہیں آرہی۔ ہاں مسلم لیگ ن کے لیے یہ جواب دینا آسان ہے کہ پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، قطع نظر اس کے کہ وفاقی حکومت بھی جانتی ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے۔
خیبرپختونخوا کے ایک شہری کی حیثیت سے ہمیں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سے ہی توقعات رکھنی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور کی صوبائی حکومت اس لائق ہی نہیں کہ ان سے صوبے کی دگرگوں حالات میں بہتری لانے کی توقع رکھی جاسکے۔
پھر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ صوبے کے لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دیا؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات میں جس طرح کا سیاسی ماحول بنا تھا اور تحریک انصاف نے جس طرح ریاست سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے بیانیے کو شکست دی، ووٹ بھی اسی سیاسی ماحول کے مطابق پڑا، دوسری بات یہ کہ تحریک انصاف کو پورے ملک میں ووٹ پڑا تھا، مگرانہیں صرف پختونخوا میں ہی جیتنے دیا گیا۔
گزشتہ کئی مہینوں سے پاڑا چنار کربلا کا منظر پیش کر رہا ہے، وزیرستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، سابقہ فاٹا کے دیگر اضلاع میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ پختونخوا کے وہ اضلاع جہاں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ یہاں کبھی ریاستی رٹ کمزور ہوگی، وہاں بھی ریاستی رٹ برائے نام رہ گئی ہے۔
ایسے میں سوال کس سے کریں؟ اگر آپ کی صوبائی حکومت نااہلی کی انتہاؤں پر ہو تو پھر شہری اپنا رونا کہاں روئیں؟ یقیناً سوال وفاق سے بنتا ہے، کیونکہ وفاق کسی ایک صوبے کا نہیں ہوتا بلکہ وفاق تمام اکائیوں کا مشترکہ ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت ایسا کیوں محسوس کرایا جارہاہے کہ ایسا نہیں ہے؟
وفاقی حکومت میں شامل دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جب سے آصف علی زرداری کی زیر تسلط آئی ہے، اس جماعت کی نظریاتی اساس ختم ہوتی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کی اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ وہ حاصل حصول میں کمال رکھتی ہے۔ سیاسی چالوں میں زرداری نے فلاں کو مات دے دی ہے پر جیالے گزارا چلا لیتے ہیں، لیکن جیالے یہ سوال نہ پوچھیں گے اور نہ ہی سوچیں گے کہ جو حاصل ہوا، وہ کتنا درست تھا؟ کیا وہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کی نظریاتی اساس کے عین مطابق تھا؟
ان کو یقیناً اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ پیپلز پارٹی سے منسلک کارکن اور لیڈر کو سوچنا ہوگا کہ ان کی جماعت سندھ کارڈ کھیل کر وفاق میں بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتی ہے، لیکن دوسری طرف پی پی دن بدن سکڑتی چلی جارہی ہے، سندھ کارڈ چھن جائے تو پیپلز پارٹی کے ہاتھ کچھ نہیں رہے گا۔
خیبرپختونخوا کی اک بڑی سیاسی جماعت جے یو آئی سے بھی سوال بنتا ہے، لیکن اگر آپ مولانا صاحب کی سیاست کو تھوڑا بہت جاننے کی کوشش کریں تو پوچھنے کو دل نہیں کرے گا، کیونکہ مولانا صاحب کی سیاسی زندگی اپنے مضبوط سیاسی قلعوں مدارس کے مرہونِ منت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مولانا صاحب کواس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے لوگوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے؟ لیکن جب کبھی مولانا صاحب کے حکومتی شیئرز خطرے میں پڑتے ہیں، وہ اپنی سیاسی طاقت دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔
مولانا کی سیاسی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے پسماندہ ترین اضلاع وہ ہیں جہاں سے مولانا اور ان کی جماعت کے لوگ جیتتے آئے ہیں۔ ایسے میں خیبرپختونخوا کے لوگ کیا کریں؟ کس کے در پر ماتھا رگڑیں؟
قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کو آگے بڑھنے نہیں دیا جا رہا، جو صوبے کے لوگوں کے حقوق کی بات کرنا چاہتے ہیں ان کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، ان کے ہاتھ پاوں باندھ لیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدقسمت پشتون ان بدترین حالات میں بے یار و مددگار حالات کے رحم و کرم پہ جی رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے حالات کو درست سمت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی سیویلینز کو ہی دی جائے، اور پھر ان سیویلینز کے پاس اختیار بھی ہونا چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بظاہر تو سیویلینزہی کے چہرے سامنے لائے جاتے ہیں لیکن فیصلہ سازی کہیں اور سے ہو رہی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبے کے حالات دن بدن خرابی کی طرف جارہے ہیں اور اس وقت امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی، یہ پریشان کن حالات ہیں۔ ان حالات میں سر جوڑنے اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ مزید دیر نہ ہو اور حالات قابو سے باہر ہو۔