اسلامی قانون وراثت اور دور جدید کے مباحث

عبدالمجید داوڑ
دین مبین،اسلام- جہاں بیت اللہ سے لیکر بیت الخلاء تک سب احکام منطقی اور عقلی لحاظ سے نہایت سادہ اور واضح طور پر درج ہیں۔کچھ احکام کی بنیاد مساوات “ہر ایک کو برابر” اور کچھ کی بنیاد عدل “ذمہ داریوں کے مطابق” ہے ۔قانون وراثت “مساوات-Equality” کی بجائے “عدل-Equity” کی بنیاد پر قائم ہے۔ عدل یہ کہ اسلام یہاں “مالی ذمہ داری” کو مقدم رکھتا ہے۔ نہایت سادہ بنیاد “مالی ذمہ داری”!

اسلام میں عورت پر کمانے کی کوئی ذمہ داری نہیں، جبکہ مرد پر مہر اور نان و نفقہ لازم ہے۔مرد خاندان کی مکمل کفالت کا پابند ہے، دفاعی اور حفاظت کا ذمہ دار ہے، جبکہ عورت کے ذمہ ایسا کچھ نہیں۔عورت کو اپنی ملکیت پر مکمل اختیار حاصل ہے،وہ اسے کسی پر خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ لہذا مرد کا حصہ اگر ۱۰۰ روپے ہے تو اس ۱۰۰ میں اسکی ذمہ داریوں کے بموجب کافی ساری کٹوتیاں ہیں جبکہ عورت کو جو ۵۰ دئیے گئے ہیں وہ سارے اسکی ملکیت ہیں۔عورت کا سرمایہ محفوظ اور مرد کا مشترکہ ہے۔ یعنی عورت کو جو وراثت ملتی ہے، وہ کسی پر بھی خرچ کرنے کی پابند نہیں ہوتی، جبکہ مرد کو اپنا حصہ اپنی بیوی، بچوں اور خاندان پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح عورت کا آدھا حصہ بھی عملاً زیادہ اور وزنی ہے۔

لہذا،علماء سے درخواست ہے کہ سوال کرنے والوں کو تحمل سےسمجھائیں کیونکہ آپ انبیاء کرام کے وارث ہیں۔ دوئم یہ کہ میرے علم میں کم ازکم قبائل میں کوئی ایسا عالم نہیں کہ جس نے اپنی بہن بیٹی کو اسلام کا مقرر کردہ وہ “آدھا حصہ” دیا ہو جسکے لئے آج سمجھانے کی بجائے فتوی داغے جارہے ہیں۔

ماڈرن مجدد حضرات سے بھی گزارش ہے کہ عورت اور مرد برابر کی بحث کب کی ختم ہوچکی ہے۔آپکو تعصب کی عینک اتار کر خلوص نیت سے اسلام کے وراثتی نظام کی ان بنیادوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جسکو بہت سے مغربی مفکرین equity یعنی صنفی تفریق کے بجائے مالی ذمہ داریوں کے باعث درست کہتے ہیں۔مثال کے طور پر انماری شمل (Annemarie Schimmel)اسلامی قوانین پر گہری نظر رکھنے والی جرمن مستشرقہ نے کتنی واضح بات لکھی ہے کہ، “اسلامی وراثتی قوانین کو مکمل معاشی تناظر میں دیکھے بغیر ان پر فیصلہ دینا غلط ہوگا۔ یہ قوانین خواتین کی مالی سلامتی کے لیے ہمیشہ ترقی پسند رہے ہیں”۔ولیم مونٹگمری واٹ (William Montgomery Watt)نے Muhammad at Medina میں لکھا ہے، “اسلامی وراثتی نظام صنفی تفریق پر نہیں، بلکہ مالی ذمہ داریوں پر مبنی ہے۔ مردوں کا زیادہ حصہ ان کے خاندان کے معاشی بوجھ سے جڑا ہے”۔جان ایس ایمبروز (John S. Ambrose) اپنی تحقیق Islamic Inheritance Laws: A Rational and Fair System میں لکھتے ہیں کہ“مغربی معاشرے مساوی وراثت پر زور دیتے ہیں،مگر اسلامی ماڈل مالی توازن کو یقینی بناتا ہے، جہاں وراثت شناخت کے بجائے ذمہ داریوں کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے”۔تھامس آر آر برک (Thomas R. R. Burke) اپنی کتاب The Justice of Islamic Law میں لکھتے ہیں“اسلامی وراثتی اصول ایک سوچاسمجھا معاشی ماڈل پیش کرتے ہیں،جوخواتین کو معاشی بوجھ سے آزاد رکھتے ہوئے ان کی مالی حفاظت یقینی بناتے ہیں”۔ مارسل بوازار (Marcel A. Boisard)اپنی کتاب Humanism in Islam میں وضاحت کرتے ہیں، “اسلامی قانون محض عددی مساوات نہیں، بلکہ سماجی انصاف پر مبنی ہے۔ وراثتی قوانین دولت کو ذمہ داری کے اصول پر تقسیم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔”

العرض اسلام کے قانون وراثت کو جہاں کہیں بھی خلوص نیت سے بطور مکالمہ رکھا گیا ہے تو ایک ایسا معاشی توازن واضح ہوتا ہے جو جمہوریت، ازم اور دھرم کے قوانین میں ناپید ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں