عزیز درانی
ہفتہ 21 دسمبر کے روز فوجی عدالتوں کی طرف سے پی ٹی آئی کے 25 کارکنوں کو سزا سنانے کے فیصلے سے پاکستانی سیاست میں ایک نیا باب کھل گیا ہے اور یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا سویلینز کا خاص طور پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا سپریم کورٹ ان ملٹری ٹرائلز کو قانونی قرار دے گی یا نہیں؟ فوجی عدالتوں کے اس فیصلے سے مجھے 1980 کے پنجگور کا واقعہ یاد آگیا۔
1980 میں فوجی عدالت نے پنجگور میں 10 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی۔ اس وقت فوجی عدالت کا یہ فیصلہ ایک اہم واقعہ تھا جس کے بعد ملک کی سیاست کی ہیئت ہی بدل گئی، اور اس کے اثرات آنے والے کئی سالوں تک نظر آئے۔ یہ اثرات صرف سیاسی حوالوں سے ہی نہیں بلکہ عدلیہ پر بھی ملٹری کورٹ کے اس فیصلے کے اثرات کئی سالوں تک نظر آئے۔ کیا فوجی عدالتوں کے موجودہ فیصلوں سے بھی پاکستان میں سیاست اور عدلیہ پر کوئی اثرات نظر آئیں گے اس کا آگے جاکر جائزہ لیں گے۔
پنجگور کے واقعے پر فوجی عدالت کے اس فیصلے کو بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت عالیہ نے فوجی عدالت کے فیصلے کو ختم کردیا۔ ابھی اس مقدمے پر سماعتیں جاری تھیں تو اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے ایک فوجی حکمنامہ جاری کردیا کہ کوئی سول عدالت فوجی عدالت کے فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی۔ ہائیکورٹ نے اس فوجی حکم کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا، جس کے بعد ضیا حکومت نے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی فل کورٹ کے سامنے اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس انوارالحق نے اٹارنی جنرل کو کہاکہ ہم نے آپ کے کلائنٹ (جنرل ضیا) کو الیکشن کرانے کے لیے 90 دن دیے تھے، ابھی تک الیکشن کیوں نہیں کروائے، جاؤ اپنے مؤکل سے پوچھ کر آؤ کہ الیکشن کب کروانے ہیں۔ گویا سپریم کورٹ سے واضح اشارے مل رہے تھے کہ عدالت کا موڈ کیا ہے، اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کا وقت مانگا تو جسٹس مولوی مشتاق نے کہا نہیں نہیں آپ کے پاس صرف 2 دن کا ٹائم ہے۔ فوجی حکومت کو 2 دن کی مہلت ملی تو اس نے ان 2 روز میں عدالتوں کی ہیئت ہی بدل دی۔
اٹارنی جنرل گئے اور انہوں نے جنرل ضیاالحق کو عدالتی موڈ کے بارے میں بریف کیا۔ ملٹری ڈکٹیٹر کو اور کچھ نہیں سوجھا تو اس نے اپنے ہی پہلے پی سی او کو معطل کرتے ہوئے ایک نیا حکم جاری کردیا جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو معطل کردیا گیا، اور ججز کو ایک بار پھر اس پی سی او کے تحت فوجی افسران کے سامنے حلف اٹھانا پڑا۔ گوکہ اس پی سی او کی وجوہات کا بل طیارہ ہائی جیکنگ کو بتایا گیا لیکن فوجی عدالتوں کا یہ معاملہ ایک بنیادی وجہ تھی۔
سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ جس کے سامنے ملٹری ٹرائل کا مقدمہ زیر سماعت ہے اپنی فائنل ججمنٹ میں کیا فیصلہ دیتا ہے۔ فی الحال تو مشروط طور پر عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ کئی مہینوں سے فوجی تحویل میں فیصلہ سننے کے منتظر یہ قیدی اپنا فیصلہ سن سکیں، کیونکہ ان میں سے کئی ایسے سیاسی کارکنان بھی تھے جن کو اگر سزا ایک سال کی ہوئی ہے تو وہ کب سے اپنی سزا مکمل کرچکے لیکن بری تب ہی ہوں گے جب فوجی عدالتوں سے ان کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ اسی طرح جن کو 2 سال کی سزا ملی ہے وہ بھی باضابطہ طور پر ضمانت کے لیے اپلائی کرسکیں گے۔
آئینی بینچ اب کم از کم ایک تو اصول وضع کردے گا کہ کن سویلینز کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چل سکتا ہے اور کن کا نہیں، اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک طریقہ کار طے ہوجائے گا جس کے بعد سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی حدود متعین ہوجائیں گی۔ اصولی طور پر تو کسی سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر کسی ملٹری انسٹالیشن پر کوئی حملہ آور ہو یا کوئی نیشنل سیکیورٹی کو بریچ کرے اس حوالے سے واضح اصول عدالت عظمیٰ کو متعین کردینے چاہییں۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز جس میں تمام سزا پانے والے 25 مجرموں کی تفصیلات بتائی گئی ہیں کہ کس کو کون سے جرم کی سزا ملی ہے اور کتنی ملی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس پریس نوٹ میں ایک جملہ بہت معنی خیز ہے کہ صحیح معنوں میں مکمل انصاف اس وقت ہوگا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور اس کے منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا ملے گی۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ فوج صرف ان سیاسی کارکنوں کا ہی نہیں بلکہ عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کا بھی فوجی عدالتوں میں 9 مئی کے واقعات پر ٹرائل کرنا چاہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہو پائے گا یا نہیں۔
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات اور مقدمات پر عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزا تو شاید ہو لیکن فوجی عدالت کی بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے ہوگی، کیونکہ بہر حال کسی سیاسی رہنما کے فوجی ٹرائل سے ایک تو بین الاقوامی سطح پر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور دوسرا پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی ایسا نہیں چاہیں گی کہ کوئی لیڈر فوجی عدالتوں سے سزا پائے۔
یہ کالم 23 دسمبر کو وی نیوز پر شائع ہوچکا ہے۔