عدنان بیٹنی
پی ٹی آئی کے حالیہ دھرنے کو انقلاب یا نظریے کی جنگ قرار دینا حقیقت سے بہت دور ہے۔ یہ محض مقبولیت کی لالچ کا ایک نمونہ ہے، جس میں قیادت نے کارکنوں کو میدان میں تنہا چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لی۔ انقلاب اور نظریاتی جنگوں میں قیادت اور کارکن ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور قربانی دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے حالیہ دھرنے میں ہم نے دیکھا کہ کیسے کارکنوں کو دھوکے میں رکھا گیا۔ لیڈران نے پشتونوں کو غیرت اور آخری دم تک ساتھ دینے کے جھوٹے وعدوں کے ساتھ میدان میں اتارا، لیکن خود ریسٹ ہاؤسز میں آرام دہ ناشتے کر رہے تھے جبکہ کارکن میدان میں قربانی دے رہے تھے۔
یہ بھی افسوس ناک ہے کہ دھرنے میں ریاست کی جانب نہتے عوام پر گولیاں چلانا ظلم اور ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ریاستی سطح پر پشتونوں اور بلوچوں، پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تاریخ طویل ہے۔ بابڑہ ، خڑ کمر اور خیبر جرگہ جیسے سانحات ریاستی دہشت گردی کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ ایسے مواقع پر پی ٹی آئی نے مظلوموں کا ساتھ دینے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں۔ اگر وہ واقعی انقلاب چاہتے ہیں تو انہیں پشتونوں، بلوچوں اور دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ انقلاب کے لیے صرف جذباتی نعروں یا سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ مضبوط بیانیہ، عملی منصوبہ بندی اور حقیقت پسند قیادت کے ساتھ استقامت کی اشد ضرورت ہے۔جو ابھی تک پاکستان تحریک انصاف میں نہیں پائی جاتی۔
آج پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے جو دکھاوا کیا جا رہا ہے وہ انقلاب کے تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ جب لیڈرشپ اور منتخب نمائیندوں کی ترجیحات محض ذاتی مفادات ہوں تو انقلاب کا دعویٰ کھوکھلا ہی رہتا ہے۔علی محمد خان، بیرسٹر سیف، حماد اظہر اور دیگر جیسے رہنماؤں کا کردار اس “فائنل کال” میں کہیں نظر نہیں آیا۔ اور پھر بھی تحریک انصاف دیگر قوتوں، مثلاً محسن نقوی، پر تنقید کرتی ہے جبکہ خود اپنی صفوں میں اسٹبلشمنٹ کے نمائندوں سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ جو اپنے تقاریر میں اصل محرکات کا زکر اعشاروں میں بھی نہیں کرسکتے۔ایسی صورتحال میں کسی تبدیلی یا انقلاب کی امید رکھنا محض ایک خواب ہے۔
یہ افسوسناک ہے کہ دھرنے میں سب سے زیادہ نقصان جذباتی کارکنوں، خصوصاً پشتون نوجوانوں کا ہوا، جو قتل ہوئے، زخمی ہوئے یا جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ اگر پی ٹی آئی نے ماضی میں شہیدوں کا مذاق نہ اڑایا ہوتا تو آج ان کے لیے ہمدردی کی فضا مختلف ہوتی۔
گالیوں اور نفرت کے اس کھیل سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا حالیہ دھرنا کسی نظریاتی جنگ یا انقلابی جدوجہد کی علامت نہیں، بلکہ محض مقبولیت کی ہوس اور عوام کو دھوکہ دینے کا ایک مظاہرہ ہے۔ انقلاب وہ ہوتا ہے جہاں قیادت اور کارکنان یکساں طور پر قربانیاں دیتے ہیں، مگر یہاں قیادت محفوظ مقامات پر جا کر فائیو اسٹار ناشتے کرتی ہے اور کارکن میدان میں چھوڑ دیے جاتے ہیں۔