جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر سے رکن قومی اسمبلی زبیر وزیر کا کہنا ہے کہ وہ انگور اڈہ کے دھرنے کے مطالبات کے حوالے سے حکام سے رابطے میں ہیں۔
امریکی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے زبیر وزیر کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ مقامی لوگوںکے تعلیم اور دیگر مسائل ہوجائیں تاہم لوگوں کیلئے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر سرحد پار سفر کرنا ممکن نہیں.
انگور اڈہ پر مقامی قبائل ا ور تاجروں نے 12 نومبر 2023 کو اس وقت دھرنا شروع کیا تھا جب حکومت پاکستان نے اس ماہ کی پہلی تاریخ کو افغانستان کے ساتھ سفر کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دینے کافیصلہ کیا تھا۔
دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ اس راستے پر سفری دستاویزات کو لازمی قرار دینے سے سرحد کے دونوں طرف تاجروں، مزدوروں، ٹرانسپورٹرز اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر بہت سے تجارتی اور سفری راستے ہیں جن میںانگور اڈہ شامل ہے جوجنوبی وزیرستان کو صوبہ پکتیکا سے ملاتی ہے۔
دھرنے کے ایک رہنما محب وزیر نےامریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انہوں نے سرحد پر سفر کرنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط اور خطے میں تعلیم، انٹرنیٹ، صحت اور بنیادی سہولیات کی کمی کے خلاف احتجاج شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مقامی لوگ شناختی کارڈ پر سفر کرتے تھے حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی،ہمارے اپنے بچے پھنسے ہوئے ہیں وہ سفر نہیں کر سکتے۔”
زبیر وزیر نے کہا کہ انہوں نے انگور اڈہ کے لوگوں کے مسائل کے بارے میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے بات کی ہے اور وہ علاقے میں فوری طور پر ایک پرائمری سکول بنانے اور وہاں بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسفارمرز لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ اور ویزے کی شرط ختم نہیں کی جاسکتی اور یہ فیصلہ سیکیورٹی کو مضبوط بنانے اور اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔