عبدالمجید داوڑ
بڑے حروف میں سیاست،انسانوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے اور انہیں قریب لانے کا نام ہے مگر بصد افسوس ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیرستان میں تیزی سے بڑھتی Political polarization عدم برداشت کے چاقو لئے ذاتیات اور اب مذہب کے گریبان میں ہاتھ ڈال چکی ہے۔ وجہ صرف دو اقتدار پرست طبقے ہیں۔ایک مذہب کی آڑ میں پارلیمنٹ تک اور دوسرا پشتون حقوق کی آڑ میں پارلیمنٹ تک پہنچنا چاہتا ہے۔مقصد دونوں کا پارلیمنٹ ہے مگر ایک کفر کے فتوی داغ رہا ہے اور دوسرا شعائر اسلام کا مذاق اڑا رہا ہے۔ نوجوان نسل ان دو طبقوں کے بیچ پھنس کر شعوری بدہضمی کا شکار ہوچکی ہے،دلوں میں تفریق بڑھنے لگی ہے اور وہ لوگ بھی ایک دوسرے پر ذاتی حملے کررہے ہیں جنہوں نے کبھی ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھی۔
میرے نزدیک ایسی سیاست جو نفرتیں پیدا کرے، دوریاں لائے، لادینیت کی ترغیب دے، بدامنی اور خون خرابے پر منتج ہو، وہ کچھ بھی ہو، سیاست نہیں۔
جسطرح آئس اور چرس بیچنے والوں، بازاری گفتگو کرنے والوں اور بداخلاق و بدکردار لوفروں سے بچوں کو بچانا ضروری ہے،عین اسی طرح ان منفی روئیوں اور منفی لوگوں سے اپنی نسلوں کو بچانا ضروری ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پورے پشتون وطن کا جو سانحہ بابڑہ 75 سال قبل ہوا تھا وہ اتنے چھوٹے سے وزیرستان میں صرف پانچ سال کے اندر دو دفعہ ہوچکا۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہمارے منفی روئیوں، عدم برداشت اور حب اقتدار کےسبب ہوا۔!
آئیں سوچیں،ہماری گفتگو کا معیار کیوں گر رہا ہے؟ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر انفرینڈ کیوں کیا جارہا ہے؟ یہ عدم برداشت کیوں؟ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم ایک ایسی صورتحال کی وجہ سے آپس میں بدظن ہوں جس میں براہِ راست ہمارا کوئی ہاتھ بھی نہیں اور موجودہ ماحول کے مطابق سب سے اہم یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان اقتدار پرستوں کی وجہ سے ہم دین اور ایمان کو ہاتھ سے گنوا بیٹھیں۔
آئیں،محبت اور احترام کو پروان چڑھائیں۔باہمی احترام کے ساتھ مکالمہ کریں، دین مبین پر عمل کی کوشش کریں، پشتون روایات کا احترام کریں۔سنی سنائی باتوں کو پھیلانے سے پرہیز کریں اور دین کے بتائے راستے کو اپنائیں۔
اللہ تبارک و تعالٰی مجھ سمیت سب کو ہدایت عطا فرمائے اور تاحیات عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے، وزیرستان کو امن کا گہوارہ اور مزید حادثات و مشکلات سے محفوظ فرمائے۔آمین ثمہ آمین یارب العالمین