دفعہ 114 کی خلاف ورزی پر بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا ء کی بڑی تعدادکو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نےبرطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ تربت سے اسلام آباد پہنچنے والے مظاہرین سے رات گئے مذاکرات ہوئے جس میں انھیں آگاہ کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کے باعث قانونی طور پر وہ اسلام آباد میں احتجاج یا اجتماع نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ترنول کے قریب جگہ پر دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں تاہم مظاہرین نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا۔
افسر کا دعویٰ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین کے خلاف آپریشن اس وقت شروع کیا جب مرکزی مارچ سے کچھ آگے موجود مظاہرین کے ایک گروہ جن کی تعداد دو سو کے قریب تھی نے پریس کلب سے پارلیمنٹ ہاؤس جانے کی کوشش کی جس پر انھیں ایوب چوک کے قریب روکا گیا۔
انتظامیہ اور پولیس کے مطابق مظاہرین کے اس گروہ میں زیادہ تر بلوچ طلبا تھے جو اسلام آباد اور راولپنڈی کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام مارچ کی رہنما ماہ رنگ بلوچ نےایکس پر دعویٰ کیا کہ انھیں اسلام آباد پولیس نے دیگر خواتین کے ہمراہ گرفتار کر لیا ہے۔
انھوں نےلکھا کہ ’مجھے اسلام آباد پولیس نے کئی خواتین اور مردوں کے ساتھ گرفتار کیا ہے لیکن ریاست کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم آپ کو شکست دیں گے۔‘
ایک اور پوسٹ میں ماہ رنگ نے لکھا کہ ’اس وقت ہم پولیس کے قید میں ہیں۔ ہمارے درجنوں نوجوان انھوں نے ہم سے پہلے گرفتار کیے ہیں اور عورتوں سمیت کئی نوجوان شدید زخمی ہیں لیکن یہ ریاست یاد رکھے ہم گرفتاریوں اور تشدد سے نہ کمزور ہوں گے اور نہ ہی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں گے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ریلی پر آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ ،خواتین اور بچوں پر تشدد کے خلاف بلوچستان بھر میں عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔
بلوچستان بار کونسل نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے پرامن احتجاجی ریلی پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ قابل مذمت ہے۔گرفتار خواتین طلباء کو فوری رہااورتشدد کرنے والے پولیس انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز مارچ کے شرکاء تونسہ شریف سے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے تھے جہاں پر پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظورپشتین کے والدین اور سابق ایم این اے علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے کارکنان نے ان کا استقبال کیا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں مارچ اور جلسہ کرنے کے بعد شرکاء اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگئے تھے اور رات گئے ترنول پہنچ گئے تھے جہاں پولیس نے انھیں وفاقی دارلحکومت میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔