زاہد وزیر/خان زیب محسود
جنوبی وزیرستان لوئر میں ضلعی انتظامیہ نے زلی خیل 9 رکنی کمیٹی سمیت تمام خود ساختہ کمیٹیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئےانھیں غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر آفس سے جاری پریس ریلیز کے مطابق عوام کی طرف سے جتنی بھی کمیٹیاں تشکیل دیدی گئی ہیں اس کو کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی حکومتی اداروں خصوصا فوج ،فرنٹیئر کور اور سول انتظامیہ کا اس سے کوئی تعلق ہے۔
بیان کے مطابق ان کمیٹیوں میں سے کوئی بھی غیر قانونی کام کریگا تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔
جنوبی وزیرستان لوئر میں سب سے بااثر 9 رکنی زلی خیل کمیٹی کافی عرصہ سے متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔
کمیٹی کی جانب سے گذشتہ روز پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کے جنوبی وزیرستان کے کوآرڈینیٹر شہزاد وزیر پر ایک جلسےمیں خطاب کرنے پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کا گھر مسمار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
شہزاد وزیر نے پی ٹی ایم کے دوستوں کے ہمراہ آج پریس کلب وانہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ زلی خیل 9 رکنی کمیٹی کی سرپرستی آئی جی ایف سی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا بلکہ پی ٹی ایم نےسیاسی اتحاد کے ہمراہ زلی خیل اور خوجل خیل کے درمیان گورگورہ کی ملکیت پر جاری جھڑپوں پر ا حتجاج کیا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نےاس احتجاج کے دوران قوم سےاپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب فاٹا انضمام ہوچکا ہے اب غیر قانونی لشکر کشی اور لوگوں کو قتل کرنے مسئلے کا حل نہیں ہےاب یہاں دلیل اور قانون کے مطابق مسئلے حل ہوں گے۔
اس سے قبل زلی خیل کمیٹی نے ستمبر میں چین میں زیر تعلیم صحافی معراج خالد پر کمیٹی کے فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر 5 لاکھ کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔کمیٹی نے جرمانہ نہ ادا کرنے کی صورت میں صحافی کا گھر مسمار کرنے کا اعلان کیا ۔
کمیٹی کے اعلان کے بعد صحافی کا خاندان اعظم ورسک سے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگیا تھا ۔
کمیٹی کے اس فیصلے نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کردیا تھا یہاں تک نگراں وزیراعلی خیبرپختونخوا نے اس فیصلے کا نوٹس لیتے ہوئے صحافی کے خاندان اور ان کے گھر کو محفوظ بنانے کےلئے انتظامیہ کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی تھی ۔
سوشل میڈیا پر سیاسی اور سماجی رہنماؤں کی جانب سے معراج پر جرمانہ عائد کرنے اور ان کے گھر کو مسمار کرنے کی شدید مذمت کی گئی جس کے بعد کمیٹی نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا ۔