سیاسی رہنماؤں اور کابینہ اراکین نے موجود نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) کو آئین اور برابری کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے.
خیبر پختونخوا کے محکمہ خزانہ کے زیر اہتمام “ضم شدہ علاقوں کی ترقی کیلئے مالیاتی وسائل کی فراہمی” کے عنوان سے سرینا ہوٹل پشاور میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکاء نے کہا کہ قبائلی علاقوں (سابقہ فاٹا) کے 2018 میں خیبر پختونخوا میں انضمام کے تاریخی اقدام کے موقع پر ان علاقوں کی ترقی اور محرومیوں کے ازالے کو ایک قومی ذمہ داری قرار دیا گیا تھا، جسے اب صرف خیبر پختونخوا کے ذمے ڈال دیا گیا ہے۔
سیمینار میں شریک نگراں کابینہ اراکین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی عمل کیلئے درکار مالی وسائل کی کمی اور اس حوالے سے مختصر مدتی اور طویل مدتی اقدامات پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔
اپنے ابتدائی کلمات میں سیکریٹری فنانس محمد ایاز نے اس بات پر زور دیا کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں ضم شدہ علاقوں کے انضمام کے بعد ان کیلئے برابری کی بنیاد حصے کیلئے درست ٹھوس اعداد وشمار پر استوار درست بیانیہ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے ایکسلی ریٹڈ امپلی منٹیشن پروگرام (اے آئی پی) کے تحت ترقیاتی منصوبوں کو نہایت اہم قرار دیا، لیکن اس مد میں فنڈز کی فراہمی میں وقتاً فوقتاً تاخیر کا بھی تذکرہ کیا۔
خیبر پختونخوا سے این ایف سی ممبر ڈاکٹر مشرف رسول سیان نے 2018 میں کی گئی آئینی ترمیم کی نسبتاً نظر انداز کیے جانے والے ایک پہلو کا ذکر کیا جو کہ ضم شدہ علاقوں کو این ایف سی کے تحت تقسیم کیے جانے والے مالیاتی وسائل میں سے برابری کی بنیاد پر حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان علاقوں کو سالانہ بنیادوں پر سو ارب روپے مختص کیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن ان سالوں میں مختص کی گئی رقم اور اس کے مقابلے میں جاری کردہ رقم کافی کم رہی ہے۔ جیسے اس سال اے آئی پی کے تحت تیس ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جس میں اس مالیاتی سال کے آخر تک صرف تین ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضم شدہ قبائلی علاقوں میں انسانی ترقی کے اعداد وشمار دیکھیں جائیں تو ان کا موازنہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بلوچستان سے کیا جاسکتا ہے لیکن بلوچستان کو جاری کیے جانے والے پر کیپیٹا فنڈز قبائلی علاقوں کے مقابلے میں دو گنا ہیں۔
سیمینار کے اختتام پر وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے خزانہ اور بجلی و توانائی حمایت اللہ خان نے کہا کہ ضم شدہ علاقوں کی ترقی کیلئے این ایف سی ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کے جائز حصے کے حوالے سے بات مختلف فورم پر اٹھانے پر زور دیا اور کہا کہ اس مقصد کیلئے سیاسی قیادت، صوبے کی انتظامی مشینری، اکیڈیمیا اور میڈیا کے درمیان بہتر اشتراک کار درکار ہے تاکہ رائے عامہ ہموار کی جاسکے اور ضم شدہ علاقوں کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ضم شدہ علاقے ہمارے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، بطور مشیر خزانہ اور توانائی میں واضح طور پر کہنا چاہتاہوں کہ ہمارے استحاکم کیلئے ضروری ہے کہ ان علاقوں کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے، یہاں نہ صرف ترقی ہو بلکہ بلا تاخیر اور تیزرفتاری کے ساتھ ہو۔
اس موقع موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر خان شیرپاؤ، نگراں صوبائی وزیر ایکسائز اینڈٹیکسیشن منظور آفریدی، نگراں وزیر بلدیات سانول نذیر اور دیگر شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ صوبے کے حقوق کے حوالے سے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر بات آگے بڑھائی جائے گی اور مؤثر آواز اٹھائی جائیگی۔