سعیدہ سلارزئی
قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور آنے کے بعد وہ اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے کہ اس دوران 2008 میں یہ اضلاع دہشت گردی کا شکار ہوگئے اور ان اضلاع میں لڑکیوں کے کئی سکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا۔
ابھی کچھ دن پہلے شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے دو سکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ اس ناخوشگوار واقع کے بعد میری وزیرستان کی ایک دوست سے فون پر ہوئی جو اس واقعہ کی وجہ سے بہت پریشان تھی اور کہہ رہی تھی کہ اب ہمارے مستقبل کا کیا ہوگا؟
انہوں نے بتایا اس واقعہ کے بعد وہاں کی لڑکیوں، اساتذہ اور عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جارہا ہے اور انہیں فکر ہے کہ کہی دوبارہ ان کے علاقے دہشت گردی کا شکار نہ ہو۔
کہا جارہا ہے کہ ان دونوں سکولوں کو نامعلوم افراد نے بموں سے اڑایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نامعلوم افراد کون ہیں اور انہوں نے کیوں ہمارے سکولوں کو نشانہ بنایا، آخر کب تک ہم ایسی زندگی گزاریں گے کیا ہمیں پڑھنے کا کوئی حق حاصل نہیں؟
میں اپنے دوست کا درد سمجھ سکتی تھی کیونکہ 2008 میں جب باجوڑ میں ہمارے سکول کو بم سے اڑا دیا گیا تب میں بھی اس طرح ڈر کر پریشان ہوگئی تھی۔
‘ یہ رات کے بارہ بجے تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی گئی۔ بجلی اور انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آریا تھا لیکن صبح ہوتے ہی ہمیں خبر ملی کہ ہمارے سکول کو دھماکے سے اڑا دیا گیا کیونکہ اس سکول کی غلطی یہ تھی کہ وہ قبائلی لڑکیوں کو تعلیم سے روشناس کرتا تھا جبکہ یہ باجوڑ میں واحد سکول تھا جہاں لڑکیاں پڑھنے کے لیے دور داز علاقوں سے آتی تھیں۔’
کچھ دن بعد جب سکول کھول دی گئی تو ہم نے ایک کنڈر نما سکول میں اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ دل میں ایک خوف سا تھا لیکن ہمت کا دامن پکڑ کر ہم نے آگے بڑھنے کا سوچا اور اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ آج میں کچھ نہ کچھ حد تک وزیرستان کے واقعہ پر لکھ سکتی ہوں۔
اب مجھے شمالی وزیرستان میں پڑھائی سے محروم ان بچیوں کی فکر ہے جو ڈر کی وجہ سے سکول نہیں جاسکتی، آیا وہ ان حالات میں سکول جاسکتی ہیں، اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ پہلی سماج سے لڑیں گی یا دہشت گردوں کے ان واقعات کا مقابلہ کریں گی؟
آیا ان کے والدین ڈر کی وجہ سے اپنی بچیوں کو سکول جانے دیں گے، آیا اگر ایک بچی صبح سکول چلی جائے تو کیا وہ چھٹی کے بعد اپنے گھر کو زندہ لوٹ سکتی ہے؟
آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر دوبارہ سے لڑکیوں کے سکولوں کو اسی طرح بموں سے اڑا دیا گیا تو اس کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کی کیا صورتحال ہوگی، وہ لوگ جو سکولوں کو بموں سے اڑاتے ہیں وہ آخر لڑکیوں کے تعلیم سے کیوں ڈرتے ہیں، کیا ایک لڑکی کے لیے تعلیم حاصل کرنا غلط بات ہے؟
میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کو تعلیم یافتہ لڑکیوں سے کیوں ڈر لگتا ہے کہی آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ تعلیم حاصل کرنے بعد یہ لڑکیوں آپ کی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں گی؟
اگر مذہب کے تناظر میں دیکھا جائے تو علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر ایک جیسا فرض ہے، پھر آپ ہوتے کون ہے لڑکیوں کو علم کی روشنائی سے دور کرنے والے؟
میری آپ سے التجا ہے کہ خدا کے لیے قبائلی اضلاع میں دوبارہ ایسے حالات نہ بنائے تاکہ لوگ دوبارہ آئی ڈی پیز بننے پر مجبور ہوجائے کیونکہ ان لوگوں نے پہلے ہی دہشت گردی کی وجہ سے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔
دوسری جانب میں ان تمام بہادر بہنوں سے یہ کہنا چاہوں گی کہ انہیں ڈرنا نہیں چاہئے اور بلاجھجھک اپنی تعلیم جاری رکھیں کیونکہ یہی وہ اصل امتحان ہے جس میں آپ کو پاس ہوکر آپ لواہا منوانا ہے۔
نوٹ :یہ تحریر ٹرائیبل نیوز نیٹ ورک پر پہلے شائع ہوچکی ہے.