پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسوں کی کامیابی خیبر پختونخوا کے کارکنوں پر منحصر ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا کو جغرافیائی لحاظ کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی اہمیت حاصل ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کے جلسے ہوں، احتجاج یا تحریک ہو ان کی کامیابی کا انحصار خیبر پختونخوا کے کارکنوں پر ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ملین مارچ، ریلیاں اور عدلیہ کے خلاف حالیہ احتجاجی دھرنے میں اس صوبے کے کارکن پیش پیش رہے۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مرکز پشاور میں ہے۔ دوسری وجہ جنوبی اضلاع میں مولانا فضل الرحمان کے سپورٹرز کی بڑی تعداد موجود ہے، اس لیے جب بھی اسلام آباد مارچ یا دھرنے کا اعلان ہوتا ہے ان علاقوں سے بڑی تعداد میں کارکنوں کی تعداد شامل ہو جاتی ہے ۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بیشتر جلسوں میں مدرسے کے طلبہ بھی شریک ہوتے ہیں جن کی کثیر تعداد خیبر پختونخوا سے آتی ہے۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے تو آزادی مارچ سے لے کر دھرنوں تک ہر جگہ خیبر پختونخوا کے کارکن سب سے آگے رہے۔ نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنا، مہنگائی کے خلاف احتجاج، انصاف کے لیے ریلیاں اور عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے ہوں تحریک انصاف خیبر پختونخوا کا یوتھ ونگ فرنٹ پر رہا۔
پشاور کے سینیئر صحافی سیف السلام سیفی نےبتایا کہ جہاں تک جمعیت علمائے اسلام کی بات ہے اس جماعت کے قائدین کا تعلق اس صوبے سے رہا ہے چاہے وہ مفتی محمود مرحوم ہوں یا موجودہ سربراہ مولانا فضل الرحمان یا پھر ان کے فرزند۔
’پشتون بیلٹ سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کے حمایتی موجود ہیں جو ہر کال پر لبیک کہہ کر اپنے سربراہ کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دینی مدارس کا ایک جال بِچھا ہوا ہے جس میں 95 فیصد مولانا فضل الرحمان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے پیروکار ہیں، جبکہ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اندر شخصیت پسندی کا عنصر موجود ہے یعنی قائد جو کہتا ہے کارکن احتراماً اس پر من و عن عمل کرتا ہے۔‘
سیف الاسلام سیفی کے مطابق ’جے یو آئی کے بعد خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی بہت مقبول ہوئی، ایک تو عمران خان کی شخصیت یہاں کے پختونوں کو پسند ہے، دوسری وجہ دہشت گردی کے جنگ سے نکلنے کا نعرہ اور امریکی غلامی کے خلاف نعرے نے یہاں کے لوگوں کو بہت متاثر کیا کیونکہ یہ لوگ اس جنگ سے تنگ آئے ہوئے تھے۔‘
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان بھی بارہا خیبر پختونخوا کے کارکنوں کی تعریف کر چکے ہیں۔
سیاسی جماعتیں پرتشدد مظاہروں پر کیوں اتر آئیں؟
سابق انسپکٹر جنرل پولیس اختر علی شاہ نے بتایا کہ ایک پرامن اجتماع ہوتا ہے جو کہ ہر شہری کا آئینی حق ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا، اور ایک ہوتا ہے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر مبنی احتجاج جس میں جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسے احتجاج کا راستہ روکیں جس سے کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
سابق آئی جی اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ پرتشدد مظاہروں کے مختلف محرکات ہو سکتے ہیں، ایک تو کچھ مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں یا پھر کچھ شرپسندوں کی وجہ سے پرامن ماحول اشتعال انگیزی کی نظر ہوجاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ایسی صورتحال کا جائزہ لے کر مظاہرین کی تعداد کے تناسب سے اہلکار تعینات کرے تاکہ مظاہرین کو منشتر کیا جا سکے۔
نوٹ :یہ سٹوری اردو نیوز پر 15 مئی کو شائع کی گئی تھی۔