پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رُکن قومی اسمبلی علی وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ ریاستی اداروں کے اندر اختلافات کے باعث قبائلی علاقوں میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئےانٹرویو میں علی کا وزیر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں اور تنقید ادارے پر نہیں بلکہ اداروں کے کچھ اقدامات پر ہوتی ہے۔
علی وزیر نے کہا کہ ان کی ضمانت پر رہائی کسی رعایت کا نتیجہ نہیں بلکہ جب کوئی راستہ باقی نہ بچا تو انہیں ضمانت ملی۔
اس سوال پر کہ ایک ریاستی ادارے نے آپ پر الزام لگایا تو دوسرے نے رہائی دی لیکن تب بھی پی ٹی ایم کی جانب سے ریاستی اداروں پر اعتماد کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا؟
علی وزیر نے کہا کہ اس معاملے پر بڑی عدالتوں نے کچھ قدم اُٹھائے، تاہم ماتحت عدالتیں کس کے زیرِ اثر ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔
انہوں نے کہا لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ ایمان دار ہیں اور اپنے کام سنجیدہ ہیں اور اپنے اداروں کی بدنامی کا باعث نہیں بنتے، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔
فوج پر تنقید کرنے والے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے علی وزیر کہتے ہیں کہ وہ کسی کی جدوجہد پر سوال نہیں کریں گے لیکن رہائی کے بعد بہت سے سیاسی رہنماؤں نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ اداروں پر تنقید نہیں کریں گے۔
رہنما پی ٹی ایم کا کہناتھا کہ انہوں نے جو باتیں کیں، جو مؤقف اور بیانیہ شروع سے اپنایا آج تک اس پر قائم ہیں۔
علی وزیر نے کہا کہ دیگر لوگوں اور ان کی تنقید میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات اور حصہ مانگنے کے لیے تنقید کرتے ہیں جب کہ ان کی تنقید حقائق و نظریات کی بنیاد پر ہے جس پر لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور اس کے اثرات ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ جن مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور جو مطالبات رکھتے ہیں وہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔
واضح رہے کہ علی وزیر کو دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھااور دو سال تک جیل میں رہنے کے بعد گزشتہ ماہ ضمانت پر رہا ہوا ہے۔